گزشتہ 6 سال سے ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ کی سوچ کے تحت آئینی اداروں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ اس سوچ کی بنیاد پر بی جے پی رہنماؤں میں جو اعتماد پیدا ہوا ہے وہ جمہوریت کے تئیں خدشات میں اضافہ کرتاہے۔ نیز بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ادین راجے بھوسلے نے مراٹھا ریزرویشن سے متعلق جو بیان دیا ہے وہ انتہائی متنازعہ اور قابل اعتراض ہے۔ مراٹھا ریزرویشن کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہونے کے باجود ادین راجے کا یہ کہنا کہ دیوندر فڑنویس کو اقتدار سونپئے تو وہ مراٹھا ریزرویشن دلادیں گے، انتہائی قابل اعتراض ہے۔ یہ باتیں آج یہاں مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری و ترجمان سچن ساونت نے کہی ہیں۔
اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے ساونت نے کہا کہ اس وقت مراٹھا ریزرویشن کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، ریاستی حکومت نے ایک بینچ تشکیل دینے کے لئے چار بار سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے۔ تاہم ابھی تک بنچ تشکیل نہیں دی گئی ہے۔
مہاراشٹر وکاس اگھاڑی حکومت مراٹھا برادری کوریزرویشن دینے کے لئے پابندعہد ہے، جس کے لیے مہاراشٹر حکومت کی جانب سے ماہر وکلا کی ایک پوری ٹیم کام کررہی ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ ریاستی حکومت اس ضمن میں اپنی تمام تر کوششیں کر رہی ہے، کچھ لوگ قصداً عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ ادین راجے بھوسلے کے بیان سے بی جے پی رہنماؤں کو ایسا لگتا ہے کہ فڈنویس سپریم کورٹ پر بھی اثرانداز ہوسکتے ہیں جو انتہائی حیران کن ہے۔ بی جے پی رہنماؤں کا یہ کہنا ہے کہ مراٹھا ریزرویشن اسی صورت میں مل سکے گا جب دیوندر فڈنویس اقتدار میں ہونگے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ارنب گوسوامی بھی فڈنویس سے مشورہ کرتے ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ 2014 میں مودی حکومت کے برسر اقتدارآنے کے بعد سے آئین و جمہوریت کے تمام اصول بالائے طاق رکھے جارہے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے خودمختار ادارے حکومت کی کٹھ پتلی بن چکے ہیں لیکن عوام کو عدلیہ پر ابھی بھی اعتماد ہے، لیکن بی جے پی کے لوگ اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم عدلیہ پر بھی اثرانداز ہوکر جیسا چاہئے ویسا فیصلہ کراسکتے ہیں تو یہ انتہائی تشویشناک ہے۔