اپنے ترجمان اخبار سامنا میں لکھے گئے اداریے میں شیوسینا نے کہا ہے کہ بی جے پی نے مرکزی حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے سے قبل کانگریس بھارت مکت کا نعرہ دیا تھا لیکن اب یہ نعرہ ناکام ہوتا دکھلائی دے رہا ہے اور خود یہ بی جے پی پر صادق آرہا ہے۔ آہستہ آہستہ بی جے پی کی ہاتھوں سے وہ ریاستیں جا رہی ہیں جہاں کسی زمانے میں مودی اور امت شاہ کی جئے جئے کار ہوا کرتی تھی وہ بی جے پی سے پاک ہوتی جا رہی ہیں۔
سامنا کے مطابق مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان جیسی بڑی ریاستوں میں بی جے پی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ ' اس میں مزید کہا گیا ہے، 2018 میں 75 فیصد ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت تھی۔ اس کے علاوہ کئی ریاستوں میں بی جے پی بیک فٹ پر چلی گئی ہے۔
سنہ 2018 میں بی جے پی نے تریپورہ اور میزورم سمیت 22 ریاستوں پر زعفرانی جھنڈے لہرا رہے تھے لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ اگر تریپورہ میں انتخابات ہوگیے تو عوام بی جے پی حکومت کاتختہ پلٹ دیں گے۔
سامنا کے مطابق 'اگر جھارکھنڈ میں وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی انتخابی اجلاس کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ بی جے پی نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں براہ راست تفرقہ پیدا کرکے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن عوام نے انہیں ناکام کر دیا۔
اخبار کے مطابق بی جے پی نے جھارکھنڈ میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی تھی وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ سمیت مرکزی وزراء سمیت مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلی اور بی جے پی کے قدآر لیڈران انتخابی مہم چلانے کے لیے میدان میں اترے تھے لیکن ان کی ایک نہیں چلی اور جھارکھنڈ کی عوام نے بی جے پی کو الوداع کہہ دیا۔