دو دن قبل شیر نے جگموہن کی 16 سالہ بیٹی مونی پر حملہ کرکے زخمی کر دیا جو آم کے باغ میں امیا لینے گئی تھی۔ اس کے بعد سے گاؤں کے لوگوں میں شیر کو لے کر خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ گاؤں والوں کی اطلاع کے بعد محکمہ جنگلات نے باغ میں پنجرا لگایا ہے لیکن شیر کو پھنسانے کے لئے نہ تو اس میں گوشت ڈالا جا رہا ہے اور نہ ہی بکرا جس سے شیر پنجرے کے قریب خوراک کی غرض سے آئے اور قید ہو جائے۔
بچی کو زخمی کرنے کے بعد شیر گاؤں کے کسی باغ میں یا کسی کھیت میں مستقل طور پر گھومتا دیکھا جا رہا ہے لیکن محکمہ جنگلات نے محض پنجرے لگا کر گاؤں والوں کو خدا کے بھروسے چھوڑ دیا ہے۔
گاؤں والوں کا الزام ہے کہ شیر آزادانہ طور پر مکئی، گنے وغیرہ کے کھیتوں میں گھوم رہا ہے اور محکمہ جنگلات آنکھیں بند کرکے سو رہا ہے جس سے گاؤں والوں کی زندگی خطرے میں دکھ رہی ہے۔ نمائندہ کرمراج ورما نے بتایا کہ متعدد بار نانپارہ رینجر سے رابطہ کیا گیا ہے اور شیر کو پکڑنے کی درخواست کی گئی ہے لیکن یہ کہتے ہوئے فون رکھ دیا گیا ہے کہ وہاں فارسٹ گارڈ ایشور سنگھ کو بھیجا گیا ہے۔
گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ پنجرا نصب ہونے کے بعد سے آج تک جنگل کا کوئی ملازم گاؤں نہیں پہنچا ہے۔ ایسی صورت میں محکمہ جنگلات کی غفلت کے سبب گاؤں والوں اور ان کے معصوم بچے کسی بھی وقت شیر کا شکار بن سکتے ہیں۔ فاریسٹ گارڈ ایشور سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ رینجر کی ہدایت کے مطابق اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سے پنجرا لگایا گیا ہے محکمہ جنگلات موقع پر کیوں نہیں پہنچا اور اسے شیر کو پکڑنے میں دلچسپی کیوں نہیں ہے؟ باغ میں پنجرا رکھنا اور شیر کا خود اس میں آنے کا انتظار کرنا یہ کہاں تک صحیح ہے۔