بہار کا خطہ سیمانچل واحد ایسا خطہ ہے جہاں کے مزدور دوسری ریاستوں میں سب سے زیادہ ملیں گے۔ یہاں پسماندگی کی شرح زیادہ ہے اور روزگار نہ ہونے سے مجبوراً روزی روٹی کیلئے یہاں کے لوگوں کو دہلی، پنجاب، ہریانہ، گجرات سمیت ملک کے مختلف حصوں میں جانا پڑتا ہے، مگر اس لاک ڈاؤن میں مزدوروں کی خستہ حالی اور بھوکے پیاسے، پیدل سفر کی تصویروں نے لوگوں کو بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے، کئی مزدوروں کی موت دوران سفر بھی ہوئی ہے۔
ان ہی مسائل کو لیکر ارریہ میں آج سیمانچل وکاس مورچہ کے زیر اہتمام سیمانچل مزدور آندولن کے موضوع پر ایک سمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ارریہ، پورنیہ، کٹیہار اور کشن گنج سے اہل علم و سیاسی جماعت کے لوگوں نے شرکت کی۔
پروگرام کی صدارت جامعتہ القاسم سپول کے بانی مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے کی جبکہ نظامت کے فرائض صحافی عبد القادر شمس نے انجام دئے۔ پروگرام میں پہنچے لوگوں نے مزدوروں کے مسائل پر بحث کی اور اس کے خاتمے کے لئے لائحہ عمل تیار کیا۔
سمینار سے خطاب کرتے ہوئے مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ کے انچارج پرنسپل مولانا شاہد عادل قاسمی نے کہا کہ اسلام مزدوروں کے تعلق سے کہا گیا ہے ان کے پسینے سوکھنے سے پہلے ان کی مزدوری دے دو۔ آج مزدور طبقہ در در کی ٹھوکر کھانے پر مجبور ہے۔
فاربس گنج سے آئے شاں جہاں شاد نے کہا کہ یہ پروگرام غیر سیاسی ہے جس میں تمام سیاسی لوگ موجود ہیں۔ ہماری کوشش ہو کہ اس پروگرام پر کوئی سیاست حاوی نہ ہو۔ تمام لوگ اپنی سطح سے مزدور کے مسائل کے حل کے لئے آگے بڑھیں۔
جمعیۃ علما ہند ارریہ کے سکریٹری قاری امتیاز نے کہا کہ سیمانچل میں فیکٹری نہ ہونے سے یہاں سے لوگ دور دراز جانے پر مجبور ہیں۔ ان مزدوروں کی لڑائی ایک عظیم لڑائی ہے جسے ہم سبھی کو متحد ہو کر لڑنا ہوگا۔ ارریہ کے سابق رکن پارلیمان سرفراز عالم نے کہا کہ سیمانچل کے مزدوروں کا ہر طرح سے استحصال ہو رہا ہے۔ یہ حکومت مزدوروں کے مسائل پر تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہم نے ایک آواز دی ہے اگر لوگوں کا ساتھ ملا تو اسے انجام تک پہنچا ئیں گے۔
پروگرام سے اے ایم آئی ایم کے یوتھ صدر ایڈوکیٹ عادل حسن آزاد، راجد کے نائب صدر کے این وشواس، جدیو کے رہبان علی، مفتی اطہر جاوید، مفتی انعام الباری قاسمی، جن جاگرن شکتی یونین کی سربراہ کمائینی سوامی، آشیش رنجن، عبد الغنی وغیرہ نے بھی خطاب کیا۔ مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کی دعا پر پروگرام اختتام پذیر ہوا۔ لاک ڈاؤن کے دوران سیاسی خطاب بھی شروع ہو چکا ہے ایسے میں مزدوروں کے مسائل پر گفتگو ایک اچھا قدم ہو سکتا ہے