سی اے اے اور این آر سی کے خلاف اترپردیش کی دارالحکومت لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں 17 جنوری کو کچھ خواتین نے دھرنے پر بیٹھ کر اس قانون کو واپس لینے کے لئے احتجاج کیا، تب سے لے کر یہ مظاہرہ مسلسل بڑھتا ہی جا رہا۔
یہاں کا مظاہرہ مرکزی دارالحکومت دہلی کے شاہین باغ کی طرز پر شروع ہوا تھا لیکن لکھنؤ کے مظاہرہ کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ یہ شاہین باغ کی طرح منظم نہیں ہے۔
لکھنؤ کے مظاہرے میں جو خواتین احتجاج کر رہی ہیں، ان میں کئی گروپ بن گئے ہیں، جو ایک دوسرے کو زیر کرنے پر آمادہ رہتی ہیں۔ باوجود اس کے 24 دن گذر جانے کے بعد بھی مظاہرہ اب بھی چل رہا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران خواتین نے کہا کہ ہم نے 'لکھنؤ چلو' کے لئے اپیل کی تھی، جس کے تحت لکھنؤ کے علاوہ دوسرے اضلاع سے بڑی تعداد میں خواتین یہاں پر شامل ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ خواتین کانفرنس کرکے اور واٹس ایپ میسج چلا کر اس کے خلاف اپیل کی تھی لیکن خواتین نے یہاں آکر سب کو غلط ثابت کردیا۔
سماجی کارکن مدھو گرگ نے کہا کہ حکومت اس مظاہرے کو صرف مسلمانوں کا دکھانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہاں پر سبھی مذاہب کی خواتین شرکت کر کے حکومت کے دعوے کی پول کھول رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ عورت صرف گھر کے اندر موجود رہے اور جو مرد کہے وہی کرے کیونکہ ان کی سوچ 'منو وادی' ہے۔
سوامی سارنگ نے کہا کہ یہاں آنے کا صرف مقصد یہ ہے کہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ ہمارے سماج کی خواتین اپنے حقوق کے لئے کتنی بیدار ہیں، میں ان کے جذبے کو سلام کرتا ہوں۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف لکھنو کے گھنٹہ گھر میں جو مظاہرہ چل رہا ہے، اس پر کافی اتارچڑھاؤ دیکھنے کو ملا۔ کبھی تعداد اچانک بڑھ جاتی ہے، تو کبھی تعداد کچھ سو تک ہی محدود رہ جاتی ہے۔
حلانکہ اترپردیش میں اس طرح کے مظاہرے کو منظم کرنے کے لئے ایک کوآرڈینیشن کمیٹی کی تشکیل دی گئی ہے لیکن وہ ابھی تک زمینی سطح پر کام نہیں کر رہی ہے۔
اس کمیٹی میں بھی یہ بڑی خامی ہے کہ اس میں زیادہ تر مرد حضرات شامل ہیں جبکہ مظاہرہ خواتین کا ہے۔