شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اس پرامن مظاہرہ نے شام ڈھلتے ڈھلتے کب تشدد کی شکل اختیار کر لیا پتہ ہی نہیں چل سکا اور پھر بعد میں بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ اور آتش زدگی کے واقعات سامنے آئے۔
سرکاری املاک کو کروڑوں کا نقصان ہوا، جس کے بعد ضلع انتظامیہ اور لکھنو پولیس نے ایسے لوگوں کی تصدیق کرکے انہیں نوٹس بھیجا تھا۔
اسی سلسلہ میں دوبارہ گزشتہ رات دارالحکومت لکھنؤ کے کئی علاقوں کے ساتھ ہی حضرت گنج کے اٹل چوک میں 57 لوگوں کی تصاویر بڑے بڑے ہورڈنگ میں شائع کی گئی۔
ان میں سابق آئی پی ایس ایس آر دارا پوری، شیعہ چاند کمیٹی کے صدر مولانا سیف عباس، کانگریسی رہنما صدف ظفر، سماجی کارکن دیپک مشرا کے علاوہ 53 دیگر لوگ اس فہرست میں شامل ہیں۔
ان سبھی لوگوں کو ایک کروڑ 55 لاکھ روپے وصولی کا نوٹس بھیجا گیا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ سب اس رقم کو ادا کرتے ہیں یا پھر کورٹ کا رخ کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں:اورنگ آباد ایئرپورٹ کا نام تبدیل
قابل ذکر ہے کہ لکھنؤ میں تشدد کے بعد صوبے کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے بیان جاری کرتے ہوئے سخت الفاظ میں کہا تھا کہ 'جن لوگوں نے توڑ پھوڑ اور آگ لگا کر نقصان کیا ہے۔ ان سے ہی پورا پیسہ وصول کیا جائے گا'۔
اس کے بعد ضلع انتظامیہ نے تحقیقی کے بعد مظاہرے میں شامل سبھی لوگوں کو نوٹس بھیجنا شروع کردیا تھا۔