19 دسمبر کو دارالحکومت لکھنؤ میں بڑے پیمانے پر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ پولیس نے اس سے پہلے ہی کئی سماجی کارکنان کو نظر بند کر دیا تھا، جس میں ایڈوکیٹ شعیب بھی شامل تھے۔
ایڈوکیٹ شعیب کو پولیس نے گھر سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ہم نے انہیں احتجاج کے دوران گرفتار کیا تھا۔ اس کے برعکس ایڈوکیٹ شعیب کی اہلیہ کئی بار بیان جاری کر چکی ہیں کہ پولیس نے انہیں گھر سے ہی گرفتار کر لیا تھا۔
19 دسمبر کو انہیں گرفتار کیا گیا اور 16 جنوری کو ضمانت ہوئی، آج وہ جیل سے رہا ہوگئے ہیں۔ حالانکہ کافی دنوں سے کوشش جاری تھی لیکن ضمانت ہی نہیں ہو پا رہی تھی، جس وجہ سے پورا ایک ماہ جیل میں رہنا پڑا۔
ایڈوکیٹ شعیب گرفتاری سے پہلے 18 دسمبر کو ای ٹی وی بھارت سے بات چیت میں کہا تھا کہ ہم شہریت ترمیمی قانون پر ہر طرح سے حکومت کی مخالفت کرتے رہیں گے، چاہے ہمیں جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ اگر جیل جاتے ہیں تب بھی ہماری یہ کوشش جاری رہے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رہائی کے بعد کیا وہ اپنے فیصلے پر قائم رہتے ہیں یا نہیں؟