متھرا کی شاہی عید گاہ کو 'شری کرشن جنم بھومی' بتائے جانے کے مسئلے پر ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے کہا کہ 'ہم لوگ کبھی بھی غلط فہمی میں نہیں تھے۔ ہمارے وکیل راجیو دھون نے پورے ایک دن بحث کی اور عدالت عظمیٰ سے مطالبہ کیا تھا کہ فیصلے کے بعد 'پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991' پر کوئی فرق نہ پڑے۔'
ظفریاب جیلانی نے کہا کہ ہندو لیڈران نے پہلے سے ہی کتابیں لکھ کر مساجد پر اپنا دعوی کیا ہے، جن میں سبرامنیم سوامی نے اپنی کتاب میں تین ہزار مساجد پر دعویٰ کرتے ہوئے بتایا کہ کبھی یہ مندر تھیں۔
انہوں نے کہا کہ مسجد پر دعوی کرکے ہندوؤں کو اپنی طرف جوڑنے کے لیے ایسی حرکتیں کی جا رہی ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا مسئلہ ہے تو ہم لوگ کبھی بھی مساجد پر اپنا حق نہیں چھوڑیں گے۔
ظفریاب جیلانی نے 'سیکولر ہندوں' پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اب ان لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ ایسے شرپسندوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ ہندو اکثریت ابھی بھی سیکولر ہیں۔ لہذا ایسے لوگوں کو منہ توڑ جواب دیں، خاموشی اختیار کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
'پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991' کے مطابق 1947 میں ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی، اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس قانون میں بابری مسجد کے تنازع کو مستثنی رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔