ETV Bharat / city

سپریم کورٹ کا 'ریکوری نوٹس' پر یوگی حکومت سے جواب طلب

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ نے اس ضمن میں داخل کی گئی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔

author img

By

Published : Jan 31, 2020, 8:26 PM IST

Updated : Feb 28, 2020, 5:02 PM IST

sc noticed to yugi government
'ریکوری نوٹس' پر یوگی حکومت سے جواب طلب

اترپردیش میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرتشدد احتجاج کے دوران سرکاری املاک کے نقصانات کی تلافی کے لئے یو پی حکومت کی جانب سے مبینہ 'ریکوری نوٹس' کے خلاف داخل کی گئی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیاہے۔

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ نے اس ضمن میں داخل کی گئی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔

بنچ نےکہا کہ آخر عدالت ریاستی حکومت کی جانب سے جاری کی گئی ان 'ریکوری' نوٹسوں کو کیوں نہ رد کر دے۔عدالت نے ریاستی حکومت کو چار ہفتوں میں جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔

گذشتہ 19-20دسمبر کو یو پی کے مختلف اضلاع میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج میں تشدد کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ جس میں پتھراؤ اور آتشزدگی کے ساتھ فائرنگ بھی ہوئی تھی۔اس میں تقریبا 23 افراد ہلاک و سینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے۔

احتجاج کے بعد ریاستی حکومت نے سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے توڑ پھوڑ اور آگ زنی سے ہونے والے نقصانات کاتخمینہ لگا کر پولیس کی جانب سے اس میں مبینہ طور سے ملوث افراد کے خلاف نقصانات کی تلافی کے لئے ریکوری نوٹس جاری کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے یوگی حکومت کی جانب سے جاری کردہ انہیں 'ریکوری' نوٹسوں کے خلاف داخل عرضیوں پر سماعت کی۔

عرضی گذار پرویز عارف ٹیٹو نے یوگی حکومت پر من مانے طریقے سے نوٹس جاری کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ 'حکومت نے ایک ایسے شخص کے خلاف بھی نوٹس جاری کیا ہے جو 94 سال کی عمر پاکر 6 سال پہلے انتقال کرچکا ہے۔

وکیل نے عدالت کے سامنے دومزید ایسے افراد کے نام پیش کئے ہیں جن کی عمر90 سال سے زیادہ ہے۔

وہیں اس ضمن میں وکیل نیلوفرخان کی جانب سے داخل کردہ عرضی میں کہا گیا ہے کہ نوٹس الہ آباد ہائی کورٹ کے 2010 میں دئیے گئے فیصلے پر مبنی ہے جو کہ سال 2009 میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے گئے فیصلے کے'رہنما اصولوں' کے خلاف ہے۔ان ہدایتوں کی سال 2018 میں دوبارہ تصدیق کی گئی تھی۔

نیلوفر نے اپنے عرضی میں کہا ہے کہ 'اس میں تضاد یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے سال 2009 کے اپنے فیصلے میں نقصانات کا تخمینہ اور قصورواروں سے تلافی کی ذمہ داری ریاستوں کے ہائی کورٹ کو سونپی تھی۔جبکہ الہ آباد ہائی کورٹ نے سال 2010 میں ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاستی حکومت کوتلافی کی کاروائی کی ذمہ داری لینے دیں۔جو کہ کافی مضر ثابت ہورہا ہے'۔

عرضی گذار نے عدالت کے سامنے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کے اس ہدایت کے تحت حکمراں جماعت اپنی دشمنی نکالنے کے لئے اپنے حریفوں یا پارٹی کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف اس کا استعمال کرسکتی ہے۔

انہوں نے عدالت سے ایسے معاملوں میں سال 2009 اور 2018 کے فیصلوں کے مطابق کاروائی کرنے کے لئے ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کرنے کی اپیل کی ہے۔

مزید پڑھیں: اقتصادی سروے 20۔2019 کی جھلکیاں

وکیل نیلوفر نے کرناٹک ہائی کورٹ کی طرح اترپردیش میں بھی احتجاج کے دوران ہونے والے تشدد کی آزادانہ عدالتی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوے کہا ہے کہ اترپردیش میں یوگی کی قیادت والی ریاستی حکومت مبینہ مظاہرین کے املاک کو ضبط کر کے، عوامی املاک کو ہوئے نقصانات کا بدلہ لینے کے یوگی کے وعدے کے تحت کام کررہی ہے۔اور اس میں اقلیتی سماج سے سیاسی بدلہ لینے کی خواہش پوشیدہ ہے۔

عرضی گذار نے کہا ہے کہ اترپردیش میں تشدد کے پاداش میں گرفتار 925 افراد کو اس وقت تک آسانی سے ضمانت نہیں مل سکتی جب تک وہ لو گ ان کے نام سے جاری ریکوری نوٹس میں درج رقم کو جمع نہیں کرادیتے۔اس کے بعد ہی ان کو مشروط ضمانت دی جائےگی۔

عرضی میں مظاہرین پر حکومت کے اشارے پر پولیس کی جانب سے بے جا طاقت کا استعمال کرنے کا دعوی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اترپردیش میں قانون کا کوئی راج نہیں رہ گیا ہے اور ریاستی حکومت کی سرپرستی میں آئین میں حاصل بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔پولیس و ریاستی حکومت نے اس ضمن میں کسی بھی قسم کی عوامی جوابدہی سے انکار کردیا ہے۔

اترپردیش میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرتشدد احتجاج کے دوران سرکاری املاک کے نقصانات کی تلافی کے لئے یو پی حکومت کی جانب سے مبینہ 'ریکوری نوٹس' کے خلاف داخل کی گئی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیاہے۔

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ نے اس ضمن میں داخل کی گئی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔

بنچ نےکہا کہ آخر عدالت ریاستی حکومت کی جانب سے جاری کی گئی ان 'ریکوری' نوٹسوں کو کیوں نہ رد کر دے۔عدالت نے ریاستی حکومت کو چار ہفتوں میں جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔

گذشتہ 19-20دسمبر کو یو پی کے مختلف اضلاع میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج میں تشدد کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ جس میں پتھراؤ اور آتشزدگی کے ساتھ فائرنگ بھی ہوئی تھی۔اس میں تقریبا 23 افراد ہلاک و سینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے۔

احتجاج کے بعد ریاستی حکومت نے سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے توڑ پھوڑ اور آگ زنی سے ہونے والے نقصانات کاتخمینہ لگا کر پولیس کی جانب سے اس میں مبینہ طور سے ملوث افراد کے خلاف نقصانات کی تلافی کے لئے ریکوری نوٹس جاری کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے یوگی حکومت کی جانب سے جاری کردہ انہیں 'ریکوری' نوٹسوں کے خلاف داخل عرضیوں پر سماعت کی۔

عرضی گذار پرویز عارف ٹیٹو نے یوگی حکومت پر من مانے طریقے سے نوٹس جاری کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ 'حکومت نے ایک ایسے شخص کے خلاف بھی نوٹس جاری کیا ہے جو 94 سال کی عمر پاکر 6 سال پہلے انتقال کرچکا ہے۔

وکیل نے عدالت کے سامنے دومزید ایسے افراد کے نام پیش کئے ہیں جن کی عمر90 سال سے زیادہ ہے۔

وہیں اس ضمن میں وکیل نیلوفرخان کی جانب سے داخل کردہ عرضی میں کہا گیا ہے کہ نوٹس الہ آباد ہائی کورٹ کے 2010 میں دئیے گئے فیصلے پر مبنی ہے جو کہ سال 2009 میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے گئے فیصلے کے'رہنما اصولوں' کے خلاف ہے۔ان ہدایتوں کی سال 2018 میں دوبارہ تصدیق کی گئی تھی۔

نیلوفر نے اپنے عرضی میں کہا ہے کہ 'اس میں تضاد یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے سال 2009 کے اپنے فیصلے میں نقصانات کا تخمینہ اور قصورواروں سے تلافی کی ذمہ داری ریاستوں کے ہائی کورٹ کو سونپی تھی۔جبکہ الہ آباد ہائی کورٹ نے سال 2010 میں ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاستی حکومت کوتلافی کی کاروائی کی ذمہ داری لینے دیں۔جو کہ کافی مضر ثابت ہورہا ہے'۔

عرضی گذار نے عدالت کے سامنے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کے اس ہدایت کے تحت حکمراں جماعت اپنی دشمنی نکالنے کے لئے اپنے حریفوں یا پارٹی کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف اس کا استعمال کرسکتی ہے۔

انہوں نے عدالت سے ایسے معاملوں میں سال 2009 اور 2018 کے فیصلوں کے مطابق کاروائی کرنے کے لئے ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کرنے کی اپیل کی ہے۔

مزید پڑھیں: اقتصادی سروے 20۔2019 کی جھلکیاں

وکیل نیلوفر نے کرناٹک ہائی کورٹ کی طرح اترپردیش میں بھی احتجاج کے دوران ہونے والے تشدد کی آزادانہ عدالتی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوے کہا ہے کہ اترپردیش میں یوگی کی قیادت والی ریاستی حکومت مبینہ مظاہرین کے املاک کو ضبط کر کے، عوامی املاک کو ہوئے نقصانات کا بدلہ لینے کے یوگی کے وعدے کے تحت کام کررہی ہے۔اور اس میں اقلیتی سماج سے سیاسی بدلہ لینے کی خواہش پوشیدہ ہے۔

عرضی گذار نے کہا ہے کہ اترپردیش میں تشدد کے پاداش میں گرفتار 925 افراد کو اس وقت تک آسانی سے ضمانت نہیں مل سکتی جب تک وہ لو گ ان کے نام سے جاری ریکوری نوٹس میں درج رقم کو جمع نہیں کرادیتے۔اس کے بعد ہی ان کو مشروط ضمانت دی جائےگی۔

عرضی میں مظاہرین پر حکومت کے اشارے پر پولیس کی جانب سے بے جا طاقت کا استعمال کرنے کا دعوی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اترپردیش میں قانون کا کوئی راج نہیں رہ گیا ہے اور ریاستی حکومت کی سرپرستی میں آئین میں حاصل بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔پولیس و ریاستی حکومت نے اس ضمن میں کسی بھی قسم کی عوامی جوابدہی سے انکار کردیا ہے۔

Intro:Body:

news


Conclusion:
Last Updated : Feb 28, 2020, 5:02 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.