ایک فریق محمد فاروق کی جانب سے سینئر وکیل شیکھر ناپھڈے نے چیف جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس ایس اے بابڈے، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس اے عبدالنذیرکی آئینی بنچ کے سامنے کہا کہ ہندوؤں کے پاس اس مقام کا محدود اختیار ہے۔ ہندوؤں کے پاس چبوترے کا حق تو ہے لیکن وہ مالکان حق حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ انہوںنے کہا کہ ہندوؤں کی جانب سے مسلسل تجاوزات کی کوششیں کی گئیں۔
اس سے پہلے مسلم فریق کے وکیل میناکشی اروڑہ نے ہندوستانی آثار قدیمہ سروے (اے ایس آئی) کی رپورٹ کا پھر ذکر کیا۔انہوںنے رپورٹ کو محض خیال بتایا جس کی بنیاد پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔
محترمہ اروڑہ نے کہا کہ اے ایس آئی رپورٹ آپینین اور اندازے پر مبنی ہے۔ علم آثار قدیمہ علم طبیعات اور علم کیمیا کی طرح سائنس نہیں ہے۔ ہرماہر آثار قدیمہ اپنے اندازے اور اوپنین کی بنیاد پر نتیجہ نکالتا ہے۔
محترمہ اروڑہ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالوں پر جسٹس بوبڈے نے کہا کہ ’’ہمیں پتہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے نتیجے نکالے جاتے ہیں۔ یہاں اصل ثبوت کون دے سکتا ہے؟ ہم یہاں اسی بنیاد پر فیصلے لے رہے ہیں کہ کس کا اندازہ صحیح ہے اور کیا متبادل ہے؟
ان کی جرح مکمل ہونے کےبعد مسٹر ناپھڑے نے دلیل دینی شروع کی۔ تقریبا دو گھنٹے بحث کرنے کے بعد جسٹس گوگوئی نے ان سے پوچھا کہ ان کی جرح مکمل کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟ مسٹر ناپھڑے نے کہا کہ ان کی جرح مکمل کرنے کے لئے دو گھنٹے کا وقت اور لگے گا لیکن چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے سے طے شیڈول میں تبدیلی نہیں ہوگی۔ بعد میں مسٹر ناپھڑے نے کہا کہ وہ 45 منٹ میں اپنی جرح پوری کرلیں گے۔
چیف جسٹس نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'سماعت طے شیڈول کے حساب سے نہیں ہورہی ہے۔ دراصل آج مسٹر ناپھڑے کو اپنی دلیل مکمل کرلینی تھی لیکن محترمہ اروڑہ نے آج ان کے حصے کا بھی وقت لے لیا'۔
محترمہ اروڑہ کی دلیل کل مکمل ہونی تھی۔ آج کی سماعت پوری ہوگئی۔ اب اگلی سماعت پیر کے دن ہوگی۔