رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب کا ماننا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون مسئلے پر سرکار بیک فوٹ پر جا چکی ہے لیکن بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے کہا تھا کہ "کورونا وائرس کا اثر کم ہوتے ہی ملک میں شہرت ترمیمی قانون کو نافذ کیا جائے گا۔"
معلوم رہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جب ملک گیر مظاہرے ہو رہے تھے، تبھی کورونا وائرس نے بھارت میں دستک دی، اس کے بعد احتجاج میں شامل خواتین نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وبائی امراض سے بچاؤ کے لیے احتجاج ملتوی کرنا ہی مناسب رہے گا۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ سرکار کی منشا مسلمانوں کو پریشان کرنے کی ہے اور مسلمانوں کے نام پر عوام کو پریشان کرنا ہے، اس قانون سے صرف مسلمانوں کو پریشانی نہیں ہوگی بلکہ لاکھوں ہندوں کو بھی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کے علاوہ ہر شہری کو اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی، جو آسان نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کے دوران بڑی کمپنیوں کے مالکان نے بھاجپا کو اقتدار میں لانے کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہایا ہے لہذا سرکار بھی انہی لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس طرح کے قانون نافذ کر رہی ہے۔
ایڈوکیٹ شعیب نے بتایا کہ ابھی کسان اپنے زمینوں کے مالک ہیں لیکن نئے قانون کے بعد انہیں اپنے ہی کھیتوں میں مزدوری کرنی پڑے گی، سی اے اے میں جن لوگوں کو حراستی کیمپ میں رکھا جائے گا، وہ ایک طرح سے مزدور بن جائیں گے، جو بڑی کمپنیوں میں مفت میں یا بہت کم مزدوری پر کام کریں گے۔
رہائی منچ کے صدر نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہندوں کو بھی اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی، اگر وہ لوگ بھارت کے شہری ہونے کا ثبوت پیش نہیں کر پائیں تو یہ کیسے ثابت کریں گے کہ ہم لوگ پاکستان، بنگلہ دیش یا افغانستان سے بھارت آئے تھے؟
ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ میں سرکار سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ "جن لوگوں کے پاس زمین نہیں ہیں، مکان نہیں ہیں یا ان کے پاس دوسرے کاغذات نہیں ہیں، وہ خود کو کیسے بھارت کا شہریت ثابت کریں گے یا اس کے لیے کوئی ثبوت پیش کر پائیں گے؟"
انہوں نے کہا کہ اب ہمیں روزگار کی لڑائی لڑنی ہے، سی اے اے اور این آر سی ہمیں ڈرانے کے مقصد سے کیا گیا ہے، سرکار اپنے خلاف کھڑے ہونے والے ہر شخص اور ہر اٹھنے والی آواز کو دبانا چاہتی ہے، ہمیں سماج میں بانٹنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ہم آپس میں لڑیں گے نہیں بلکہ ایک ساتھ مضبوط ہو کر اپنے حقوق کا مطالبہ کریں گے۔
قابل ذکر ہے کہ لکھنؤ پولیس سی اے اے کے نام پر مظاہرین کے ساتھ ان کے اہل خانہ کو بھی فرضی مقدمات میں پھنسا کر گرفتار کر رہی ہے، کچھ روز پہلے سماجی کارکن زینب صدیقی کے والد کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کے چھوٹے بھائی کے ساتھ جانوروں کی طرح سلوک کیا گیا۔
ایڈوکیٹ شعیب نے بتایا کہ دو روز قبل مجھے بھی نوٹس دی گئی کہ تین دنوں کے اندر 68 لاکھ روپے ادا کریں، انہوں نے اپنے جواب میں کہا کہ میں 2008 سے بغیر فیس لیے دوسروں کی مدد کر رہا ہوں لہذا میرے پاس کوئی گھر یا دولت نہیں ہے، میرے اخراجات میری بیوی پورا کرتی ہے، جسے پینشن ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرکار بھی اسے غیر قانونی مانتی ہے، باوجود اس کے وہ ڈرانے دھمکانے کے لیے ایسا کر رہی ہے جبکہ ٹریبونل ہی جرمانہ عائد کر سکتی ہے لیکن اے ڈی ایم بار بار مظاہرین کو نوٹس دے رہے ہیں، میرے ساتھ دوسرے 28 لوگوں کو بھی جرمانہ بھرنا ہے۔
حکومت بھلے ہی ہمیں نوٹس جاری کر کے ڈرانا دھمکانا چاہتی ہے لیکن ہم لوگ ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گے، رہائی منچ اور اسکے سبھی نوجوان ساتھی ضروت مندوں کے لیے ہر ممکن مدد کر رہے ہیں۔