اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں مسلمانوں نے بابری مسجد متنازع معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے کہا کہ' کورٹ نے فیصلہ دیا ہے لیکن ہمیں انصاف کی ضرورت تھی'۔
الامام ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر عمران حسن صدیقی نے ای ٹی وی بھارت سے کہا کہ' یہ انصاف نہیں بلکہ عدالت عظمی کا فیصلہ ہے'۔
انہوں نے کہا کہ' قانون کو انصاف کرنا چاہیے تھا کیونکہ مسلم سماج امید لگائے بیٹھا تھا۔ اس کے برعکس کورٹ نے اکثریت سماج کے حق میں فیصلہ 'آستھا' کے نام پر سنایا ہے۔ یہ بھارتی تاریخ میں 'سیاہ دھبہ' کے طور پر یاد کیا جائے گا۔
ڈاکڑ اطہر کاظمی نے کہا کہ' ہم بھارت کے آئین کو دل و جگر میں رکھتے ہیں لہذا کورٹ کے فیصلے پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ حکومت کا جو موقف رہا، وہ مسلم سماج کے لوگوں کو درد دینے والا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے کئی پہلو ہیں، جو سیکولر ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو حق پسندی کے اصول پر چلانا ہوتا ہے لیکن کہیں نہ کہیں حکومت کی طرف سے اس میں کوتاہی برتی گئی ہے، خیر ہم سبھی ہندو بھائیوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں'۔
ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے کہا کہ' 9 نومبر 2019 کو جب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا، تبھی میں نے عدالت میں کہہ دیا تھا کہ 'ہم اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں۔ غور و فکر کے بعد ریویو پٹیشن داخل کریں گے'۔ ظفریاب جیلانی نے بتایا کہ' ہم نے بنیادی نکات لکھ کر سپریم کورٹ میں ریویو داخل کیا لیکن سماعت کے بغیر ہی اسے خارج کر دیا گیا'۔
مزید پڑھیں:
بابری مسجد: تعمیرات کو مسمار کیا جا سکتا ہے، تاریخ کو نہیں
ایودھیا میں رام مندر تعمیر کی بنیاد آج وزیر اعظم نریندرمودی نے رکھ دی گئی ہے۔ نوابوں کے شہر لکھنؤ میں اس تعلق سے مسلم سماج نے کسی طرح کی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن اتنا ضرور کہا کہ' سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے، انصاف نہیں'۔