لاک ڈاؤن کے دوران حکومت نے جب سے مہاجر مزدوروں کو ان کے آبائی گاؤں بھیجنے کے لیے ٹرین چلانے کا فیصلہ لیا، تبھی سے مجیب اللہ نے گھر میں بیٹھ کر آرام کرنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ ضرورتمندوں کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کی۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران مجیب اللہ نے بتایا کہ ان عمر 80 برس ہے اور گزشتہ 50 برسوں سے لکھنؤ ریلوے اسٹیشن پر قلی کا کام کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کے سبب ملک میں نافذ لاک ڈاؤن کے دوران لوگ ڈر و خوف میں مبتلاء اور پریشان حال ہیں لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی مدد کریں، اس لیے میں کسی بھی مسافر سے پیسے نہیں لیتا۔ اگر کوئی خوشی سے کچھ دیتا ہے تو لے لیتا ہوں ورنہ میرے لیے ان کی دعائیں ہی کافی ہیں۔
مجیب اللہ کی باتوں اور ان کے کام کو دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہین کہ وہ ایک زندہ دل انسان ہیں عمر کی آٹھ دہائی مکمل کرنے بعد بھی وہ خوش رہنے اور دوسروں کو خوش کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جبکہ وہ شاعری کا بھی شوق رکھتے ہیں جو انہوں نے باتوں باتوں میں ہی اشعار سنا کر بتا دیا۔
مجیب اللہ کہتے ہیں کہ 'یہ وہی مسافر ہیں جن کی بدولت ہم لوگ ہزاروں روپے کماتے تھے اور اگر آج یہ مشکلات کا شکار ہیں ہمیں ان سے پیسہ نہ لیتے ہوئے ان کی مدد کرنی چاہیے۔
مجیب اللہ کی عمر 80 برس ہے اس کے باوجود وہ پانچ تا سات کلو میٹر پیدل چل کے چار باغ ریلوے اسٹیشن پہنچتے ہیں اور خدمت خلق میں لگ جاتے ہیں۔ ان کے خاندان میں 10 افراد ہیں۔
وہ کہتے ہیں ہمارے اخراجات آسانی سے پورے ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمیں یہاں سے راشن اور پیسہ بھی ملا ہے اس لیے ہم مسافروں سے پیسہ وصول نہیں کرتے۔
ایسے وقت میں جب لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر کچھ دکاندار چیزوں کی اضافی قیمت وصول کر رہے ہیں تب مجیب الرحمن مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔