لکھنوں میں ہوئے کامران کے انکاونٹر پر اب سوال اٹھائے جارہے ہیں جبکہ کامران کے اہل خانہ اسے سیاسی قتل قرار دے رہے ہیں۔ انسانی حقوق تنظیم رہائی منچ کے جنرل سیکریٹری راجیو یادو نے کامران کے اہل خانہ کے ہمراہ اعظم گڑھ کے ایس ایس پی اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے ملاقات کی اور معاملے کی جانچ کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے قتل میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کرنے کی بھی اپیل کی۔
راجیو یادو نے کامران کی موت کو سیاسی قتل بتایا۔ انہوں نے کہا کہ کامران کے بھائی عمران نے کہا کہ "40 برس کے کامران کے لکھنؤ میں ایس ٹی ایف کے ذریعے انکاؤنٹر میں ہلاکت کی خبر 27 اکتوبر کی رات تقریبا نو بجے ملی جسکے بعد جب اس کی لاش دی گئی تو دیکھا گیا کہ منہ میں اوپر اور نیچے کے دو دانت ٹوٹے ہوئے تھے، بائیں آنکھ نہیں تھی، داہنے ہاتھ کی کلائی اور کندھا ٹوٹا ہوا تھا، دونوں ہتھیلیاں کالی تھی اور کان سے خون بہہ رہا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کان کا پردہ پھٹا ہوا تھا۔
عمران نے بتایا کہ اس کے علاوہ گلے پررسی کے نشان تھے۔ ایک گولی ناک کے پاس اور ایک گولی سینے کے دائیں جانب لگی تھی۔ لاش کو اس حالت میں دیکھ کر صاف ظاہر ہورہا تھا کہ کامران کی موت سے پہلے اس سے مارپیٹ کی گئی تھی اور اس کے ساتھ سخت تشدد کیا گیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ انکاؤنٹر نہیں قتل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ "27 اکتوبر کی شام چار بجے کے قریب کامران نے فون کرکے صرف پانچ منٹ میں گھر پہنچنے کی بات کی تھی جس کے بعد اس کے انکاؤنٹر کی خبر ملی۔
یہ بھی پڑھیں: اعظم گڑھ پولیس مختارانصاری کی اہلیہ کی جائیدار ضبط کرے گی
انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے اس پر ایک فرضی مقدمہ درج کر گرفتار کیا گیا تھا۔ کچھ ماہ قبل پنچایتی انتخابات میں گاؤں کے کچھ لوگوں سے رنجشیں ہوگئی تھی۔ کامران کے اہل خانہ نے انہیں لوگوں پر پولیس کے ساتھ مل کر انکاونٹر کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔ کامران کے بھائی عمران نے کہا کہ ابھی تک پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں ملی ہے۔