ڈاکٹر کفیل خان پر اشتعال انگیز تقاریر کا الزام ہے اورہ وہ اس وقت متھرا جیل میں بند ہیں، 4 اگست کو محکمہ داخلہ کے ایڈیشنل سکریٹری ونئے کمار کے دستخط کے تحت جاری کردہ ایک حکم میں کہا گیا تھا کہ نیشنل سیکیورٹی ایکٹ 1980 کی دفعہ 3 (2) کے تحت کفیل خان کو علی گڑھ ضلع مجسٹریٹ کے حکم پر 13 فروری 2020 کو حراست میں لیا گیا تھا۔
ایکٹ کی دفعہ 10 کے تحت یہ معاملہ مشاورت داتری کونسل کو بھیجا گیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ کفیل کو جیل میں رکھنے کے لئے کافی وجوہات موجود ہیں، لہذا 6 مئی کو وہ راسوکا کے تحت مزید تین ماہ کے لئے جیل میں میں رکھے جانے کا حکم دیا ہے۔
حکم نامے کے مطابق اتر پردیش کی مشاورتی داتری کونسل کی رپورٹ اور علی گڑھ کے ضلع آفیسر سے موصولہ رپورٹ پر غور کرنے کے بعد گورنر آنندی بین پٹیل نے ڈاکٹر کفیل کی حراستی مدت میں مزید تین ماہ کی توسیع کی ہدایت دی ہے۔
اس حکم سے ناراض کفیل کی اہلیہ ڈاکٹر شبستہ خان نے ایک ویڈیو جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے شوہر کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ جب راسوکا کے تحت کفیل پر کارروائی کی گئی تب بھی انہوں نے حکومت سے یہی سوال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کارروائی کی بنیاد کیا ہے؟ مشکل وقت میں ملک کے عوام کی خدمت کرنے والے ڈاکٹر سے ملک کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا 'آج بھی میرا سوال یہ ہے کہ کفیل پر راسوکا کیوں لگایا گیا ہے؟ حکومت آج تک اس کا جواب نہیں دے سکی ہے۔ ان پر راسوکا کی مدت تین تین مرتبہ بڑھائی گئی ہے، ہمیں 14 اگست کو تازہ ترین توسیع مل گئی ہے۔
شبستہ نے کہا 'سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا آج ہم واقعی آزاد ہیں؟ اگر آج ہم آواز اٹھائیں گے تو پھر ہمیں جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ آج یہ میرے شوہر کے ساتھ ہو رہا ہے، کل یہ کسی اور کے شوہر یا بیٹے کے ساتھ ہوگا۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر آپ آج ہمارے لیے آواز نہیں اٹھائیں گے تو کل آپ کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھائے گا'۔
قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر کفیل خان اگست 2017 میں گورکھپور میڈیکل کالج میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے بڑی تعداد میں بچوں کی ہلاکت کے سلسلے میں بحث میں آئے تھے۔ اس وقت متعلقہ وارڈ کے نوڈل افسر رہے کفیل خان کو غفلت برتنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں انہیں رہا کردیا گیا تھا۔