ریاست اترپردیش کے شہر رامپور میں واقع عالمی شہرت یافتہ رامپور رضا لائبریری کے نصف صدی تک ناظم اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہنے والے مولانا امتیاز علی عرشی نے لائبریری میں نہ صرف فہرست سازی کی خدمات انجام دیں بلکہ مخطوطات کی کئی فہارس کو مغربی اصول فہرست سازی کے مطابق ترتیب دیکر شائع کیا۔ ساتھ ہی مولانا عرشی کو ماہر غالبیات کے طور پر بھی سمجھا جاتا ہے۔
رامپور کی ممتاز علمی و ادبی شخصیات میں مولانا امتیاز علی عرشی کا نام سر فہرست آتا ہے، یوں تو مولانا نے کئی علمی و تحقیقی کاموں کو سرانجام دیا ہے لیکن غالب شناسی مولانا عرشی کا ایک قابل قدر اور اہم کارنامہ ہے۔
محققین، ناقدین اور ادب کے خدمت گاروں کی ایک پوری کہکشاں ہے جنہوں نے تحقیق و تدوین کے میدان میں عرشی صاحب کی اعلی صلاحیت کا اعتراف کیا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن کے پروفیسر شافع قدوائی نے رامپور رضا لائبریری کی ایک تقریب میں شرکت کے موقع پر ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مولانا عرشی کے زمانے میں تحقیق کے میدان میں بہت سے نام مشہور ہوئے ان میں مولانا عرشی کا اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے متنی تنقید کا کام کیا ہے۔
مولانا عرشی کے مکاتب غالب اور نسخہ غالب میں ان کے مقدمہ کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے غالب کے حالات ان کی شخصیت اور دوسری باتوں کو صرف اسی لئے من و عن قبول نہیں کیا ہے کہ انہیں غالب نے کہا ہے بلکہ انہوں نے ہر بات ہر واقعہ کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ اسی لیے جگہ جگہ انہوں نے غالب کی باتوں سے اختلاف کیا ہے اور غالب سے متعلق جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اسے بھی تنقید کی کسوٹی پر پرکھ کر ہی اپنی تحریر میں شامل کیا ہے۔
اپنے مقدمہ میں مولانا عرشی نے غالب کے شعری نقطہء نظر، غالب کے اصلاحی نقطہ نظر، غالب کی شخصیت کی خوبیوں اور خامیوں سب پر گفتگو کی ہے، مولانا عرشی نے اردو املا میں متعدد نہیں راہیں بھی نکالی ہیں، غالب شناسی یا غالب کے متعلقات میں متنی تنقید یا متن پر مشتمل تنقید میں بنیادی حوالہ تلاش کریں تو اس سلسلے میں مولانا عرشی کا کوئی شریک و سہیم نہیں ہے۔
سرسید سے متنی تنقید کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اسے اور زیادہ قوت سے زیادہ مضبوطی سے مولانا عرشی نے قائم رکھا، وہ کہیں بھی متن سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے متن سے مقابلہ و مکالمہ کیا ہے۔