اس موقعے پر انہوں نے کہا کہ سی اے اے کے خلاف جاری احتجاج عام احتجاج نہیں بلکہ عوامی تحریک ہے۔ انہوں نے کہا کہ' عوام سمیت دانشگاہوں کے طلباء سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔'
انہوں نے مزید کہا کہ' عوام نے طلاق ثلاثہ پر خاموشی اختیار کی، بابری مسجد پر خاموش رہے، کشمیر پر خاموش رہے لیکن ملک کے غریب طبقے کو اس قانون پر تحفظات ہیں، انہیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں نہ کہیں ان کی شہریت خطرے میں ہیں، اور طلبا کو لگا کہ ملک کا آئین خطرے میں ہیں اس لیے اس قانون کے خلاف احتجاج میں طلبا اور خواتین پیش پیش ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ' حکومتیں ضد سے نہیں چلتی بلکہ سماج کے ہر طبقے کو ساتھ لے کر چلا جاتا ہے۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف سماج کی خواتین میدان میں اتر گئیں ہیں۔ حکومت کو اس قانون کو واپس لینا چاہیے کیونکہ یہ ملک آئین کے خلاف ہے'۔
انہوں نے حکومت نے پہلے طاقت کے استعمال سے احتجاج کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن جب عوام پر تشدد ہوئے تو خواتین نے بہادری دکھاتے ہوئے ایک تحریک شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ' پولیس پہلے مظاہرہ میں شامل عوام پر تشدد کر چکی ہے، جس وجہ سے لوگوں کے دل و دماغ پر خوف پیدا ہو گیا ہے۔ لہذا اب اس تحریک کی کمان بھارت کی خواتین کے ہاتھوں میں ہے۔
انہوں نے روپے دے کر احتجاج میں شامل ہونے کے سوال پر کہا کہ' وہ لوگ راتوں کو نہیں ٹھہرتیں، مزید اگر وہ 500 روپے کی لالچ میں آئین ہیں تو آپ زیادہ روپے دے کر انہیں واپس کردیں، بلکہ روپے دیکر بلانے کا کام بھاجپا پارٹی کرتی ہے۔ چا ہے وزیر اعظم کی ریلی ہو یا پارٹی کے کسی دوسرے لیڈران کی۔
انہوں نے بتایا کہ' سب سے پہلے کشمیر کی عوام پر اس طرح کے الزامات عائد کیے جاتے تھے انہیں پتھر بازی کے عوض روپے ملتے ہیں اور اب خواتین پر یہی الزام لگایا جا رہا ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ یہ پیسے دیکر بلائیں گئیں خواتین نہیں ہیں کیونکہ رات دن یہ لوگ پریشانیوں میں رہ کر احتجاج کرتی ہیں۔
انہوں نے طلاق ثلاثہ بل پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ' بی جے پی صرف ووٹ بینک مضبوط کرنے کے لیے ایسا کیا تھا۔
سندیپ پاندے نے کہا کہ اب عوام بیدار ہوچکی ہے اور وہ حکومت کے فیصلے پر کھل کر سامنے آرہی ہے۔ بی جے پی سرکار مان رہی تھی کہ جس طرح سے جی ایس ٹی، طلاق ثلاثہ، کشمیر، بابری مسجد کیس پر عوام خاموش رہی، اسی طرح اس بار بھی خاموشی کے ساتھ فیصلہ تسلیم کر لے گی لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔
مسٹر پانڈے نے کہا کہ جو کام سیاسی جماعتوں کو کرنا چاہیے تھا وہ اس پر پوری طرح ناکام ہیں۔ شاید انہیں ڈر ہے کہ مودی حکومت ان کی بدعنوانیوں کو سامنے لاکر انہیں جیل نہ بھیج دے۔'