ETV Bharat / city

شمس الرحمان فاروقی کی حیات و خدمات پر خصوصی رپورٹ

author img

By

Published : Dec 25, 2020, 8:54 PM IST

Updated : Dec 25, 2020, 10:43 PM IST

اردو دنیا کا درخشندہ ستارہ شمس الرحمٰن فاروقی بھی غروب ہوگیا۔ عالمی شہرت یافتہ نقاد، فکشن نگار، افسانہ نگار اور شاعر بھی اس ڈوبتے سال میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔

Etv Special report on the life and work of Shams-ur-Rehman Farooqi
شمس الرحمان فاروقی کی حیات و خدمات پر خصوصی رپورٹ

بلاشبہ فاروقی صاحب کے مرحوم ہونے سے اردو دنیا کو جو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی مستقبل قریب میں تو مشکل ہے۔ ایک ایسا شخص جس کا باضابطہ اردو ادب سے نہ تو کبھی واسطہ رہا نہ رابطہ۔ لیکن جب انہوں نے اردو زبان و ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو اپنے زمانے کے سب سے بڑے نقاد اور افسانہ نگار قرار پائے۔ باریک بینی اور ادب شناسی میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اردو ادب میں جو وراثت انہوں نے چھوڑی ہے وہ زمانہ طویل تک اردو کے بہی خواہوں کو سیراب کرتی رہے گی۔

شمس الرحمان فاروقی کی حیات و خدمات پر خصوصی رپورٹ

واقعہ یہ ہے کہ ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ انہیں یکجا کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ فاروقی صاحب انتہائی با اصول، وقت کے پابند اور وسیع المطالعہ شخص تھے۔ مختلف موضوعات پر کتابیں حاصل کرنا، انھیں پڑھنا اور جو کچھ پڑھا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا ان کی فطرت ثانیہ رہی۔

ڈاک خانہ کی شاندار ملازمت، شب خون کی اشاعت، اندرون وطن اور بیرون وطن کے اسفار نیز ان کی کتابوں، تقریروں، علمی وادبی لکچرز اور عظیم شخصیتوں سے میل جول کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ قریبی اعزہ سے لے کر دور دراز رہنے والے صاحبانِ ذوق بھی ان کے مداح اور قصیدہ خواں ہیں۔

شمس الرحمٰن فاروقی نے امریکہ کی پنسلوینیا یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشا ریجنل اسٹڈیز سینٹر کے پارٹ ٹائم پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ وہ الہ آباد میں ’شب خوں‘ میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔

شمس الرحمٰن فاروقی کو اردو میں تنقید نگاری کا ماہر قرار دیا جاتا تھا۔ انہیں ’سرسوتی ایوارڈ‘ کے علاوہ سنہ 1986 میں اردو کے لئے ’ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔ میر تقی میر پر ان کی شہرہ آفاق کتاب 'شعر شور انگیز' چار جلدوں میں شائع ہوئیں۔ تفہیم غالب، تعبیر کی شرح، انداز گفتگو کیا ہے؟، اردو کا ابتدائی زمانہ، درس بلاغت، اردو غزل، اشارات و نفی، تنقیدی افکار، خورشید کا سامان سفر، کئی چاند تھے سر آسماں، لغات روزہ مرہ اور تضمین اللغات، شمس الرحمان فاروقی کی مشہور ترین تخلیقات میں شامل ہیں۔

ان کے افسانوں کا مجموعہ سوار اور ان کا ضخیم ناول 'کئی چاند تھے سر آسمان' کا ترجمہ دنیا کی کئی اہم زبانوں میں ہو چکا ہے۔ اور ان تصنیفات کو اردو ادب میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شمس الرحمان فاروقی کو ان کی زندگی میں جو شہرت اور مقبولیت ملی وہ بہت کم اردو ادیبوں کو نصیب ہوئی ہے۔ حکومت ہند کی جانب سے ان کو 'پدم شری' کا اعزاز ملا۔ اس کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ان کی گراں قدر خدمات کے لئے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔

شمس الرحمان فاروقی کو ملک کا سب سے بڑا ادبی اعزاز سرسوتی سمان، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ، مختلف اردو اکیڈمیوں کی طرف سے ایوارڈز سے نواز گیا۔ شمس الرحمان فاروقی قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر بھی رہے لیکن شمس الرحمان فاروقی کو شہرت ان کی اردو خدمات کی وجہ سے ملی۔

مزید پڑھیں: پدم شری شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال

شمس الرحمان فاروقی نے ملازمت میں رہتے ہوئے بھی اردو زبان ادب کی بے مثال خدمات انجام دیں۔ انہوں نے تمام تر مصروفیات کے با وجود تین درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں اور سینکڑوں مقالے اور مضامین لکھے۔

بلاشبہ فاروقی صاحب کے مرحوم ہونے سے اردو دنیا کو جو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی مستقبل قریب میں تو مشکل ہے۔ ایک ایسا شخص جس کا باضابطہ اردو ادب سے نہ تو کبھی واسطہ رہا نہ رابطہ۔ لیکن جب انہوں نے اردو زبان و ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو اپنے زمانے کے سب سے بڑے نقاد اور افسانہ نگار قرار پائے۔ باریک بینی اور ادب شناسی میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اردو ادب میں جو وراثت انہوں نے چھوڑی ہے وہ زمانہ طویل تک اردو کے بہی خواہوں کو سیراب کرتی رہے گی۔

شمس الرحمان فاروقی کی حیات و خدمات پر خصوصی رپورٹ

واقعہ یہ ہے کہ ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ انہیں یکجا کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ فاروقی صاحب انتہائی با اصول، وقت کے پابند اور وسیع المطالعہ شخص تھے۔ مختلف موضوعات پر کتابیں حاصل کرنا، انھیں پڑھنا اور جو کچھ پڑھا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا ان کی فطرت ثانیہ رہی۔

ڈاک خانہ کی شاندار ملازمت، شب خون کی اشاعت، اندرون وطن اور بیرون وطن کے اسفار نیز ان کی کتابوں، تقریروں، علمی وادبی لکچرز اور عظیم شخصیتوں سے میل جول کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ قریبی اعزہ سے لے کر دور دراز رہنے والے صاحبانِ ذوق بھی ان کے مداح اور قصیدہ خواں ہیں۔

شمس الرحمٰن فاروقی نے امریکہ کی پنسلوینیا یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشا ریجنل اسٹڈیز سینٹر کے پارٹ ٹائم پروفیسر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ وہ الہ آباد میں ’شب خوں‘ میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔

شمس الرحمٰن فاروقی کو اردو میں تنقید نگاری کا ماہر قرار دیا جاتا تھا۔ انہیں ’سرسوتی ایوارڈ‘ کے علاوہ سنہ 1986 میں اردو کے لئے ’ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔ میر تقی میر پر ان کی شہرہ آفاق کتاب 'شعر شور انگیز' چار جلدوں میں شائع ہوئیں۔ تفہیم غالب، تعبیر کی شرح، انداز گفتگو کیا ہے؟، اردو کا ابتدائی زمانہ، درس بلاغت، اردو غزل، اشارات و نفی، تنقیدی افکار، خورشید کا سامان سفر، کئی چاند تھے سر آسماں، لغات روزہ مرہ اور تضمین اللغات، شمس الرحمان فاروقی کی مشہور ترین تخلیقات میں شامل ہیں۔

ان کے افسانوں کا مجموعہ سوار اور ان کا ضخیم ناول 'کئی چاند تھے سر آسمان' کا ترجمہ دنیا کی کئی اہم زبانوں میں ہو چکا ہے۔ اور ان تصنیفات کو اردو ادب میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شمس الرحمان فاروقی کو ان کی زندگی میں جو شہرت اور مقبولیت ملی وہ بہت کم اردو ادیبوں کو نصیب ہوئی ہے۔ حکومت ہند کی جانب سے ان کو 'پدم شری' کا اعزاز ملا۔ اس کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ان کی گراں قدر خدمات کے لئے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔

شمس الرحمان فاروقی کو ملک کا سب سے بڑا ادبی اعزاز سرسوتی سمان، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ، مختلف اردو اکیڈمیوں کی طرف سے ایوارڈز سے نواز گیا۔ شمس الرحمان فاروقی قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر بھی رہے لیکن شمس الرحمان فاروقی کو شہرت ان کی اردو خدمات کی وجہ سے ملی۔

مزید پڑھیں: پدم شری شمس الرحمٰن فاروقی کا انتقال

شمس الرحمان فاروقی نے ملازمت میں رہتے ہوئے بھی اردو زبان ادب کی بے مثال خدمات انجام دیں۔ انہوں نے تمام تر مصروفیات کے با وجود تین درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں اور سینکڑوں مقالے اور مضامین لکھے۔

Last Updated : Dec 25, 2020, 10:43 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.