ETV Bharat / city

تبدیلی مذہب قانون آئین کے خلاف: رہائی منچ

رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ تبدیلی مذہب قانون مسلمانوں کو پریشان کرنے والا اور آئین کے خلاف ہے، اس قانون کا غلط استعمال کیا جائے گا خاص طور پر جب لڑکا مسلم اور لڑکی ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔

President of rehayi Manch Advocate Shoaib
رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب
author img

By

Published : Dec 11, 2020, 10:21 PM IST

ریاست اترپردیش کی حکومت کی جانب سے تبدیلی مذہب قانون بنانے کے بعد سے ہی ریاست کے متعدد اضلاع میں ہندو مسلم شادی کو پولیس نے روک دیا ہے، ایسا ہی ایک معاملہ دارالحکومت لکھنؤ میں بھی رونما ہونے کے فورا بعد پولیس نے اسے روک دیا تھا۔

رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب

لکھنؤ پولیس نے دونوں خاندان کے ذمہ داران کو سمجھایا کہ "نئے قانون کے مطابق ایسا کرنا مناسب نہیں ہے، پہلے لڑکے اور لڑکی کو ضلع مجسٹریٹ کو تبدیلی مذہب کی اطلاع دینی ہوگی، اس کے بعد ہی شادی ہو سکے گی۔"

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ یہ قانون مسلمانوں کو پریشان کرنے والا اور آئین کے خلاف بھی ہے، انہوں نے کہا کہ "اگر لڑکی مسلم اور لڑکا ہندو مذہب سے تعلق رکھتا ہے، تب شادی ہو جاتی ہے لیکن اس کے برعکس لڑکی ہندو مذہب سے ہونے پر پولیس شادی کو روک دیتی ہے اور کاروائی کرتی ہے۔"

ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے، تبدیلی مذہب قانون بنانے کا مقصد جو جس مذہب میں ہے، وہ وہیں رہیں، اکثر اوقات دیکھا جاتا ہے کہ ہندو مذہب کے لوگ مسلم یا عیسائی مذہب اختیار کر لیتے ہیں، جس کا ہمیشہ سے ہندو وادی تنظیموں نے سخت اعتراض کیا ہے۔

رہائی منچ کے صدر نے کہا کہ تبدیلی مذہب قانون ملک کے آئین کے خلاف ہے کیونکہ آئین کسی بھی مذاہب کو اپنانے کی آزادی دیتا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر اسے کورٹ میں چیلینج کیا گیا تو یہی فیصلہ ہونا چاہیے کہ "ملک کا آئین اوپر ہے اور یہ قانون اس کے خلاف۔"

قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ میں اترپردیش اور اتراکھنڈ کے تبدیلی مذہب آرڈیننس 2020 کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ آرڈیننس بنیادی حقوق چھین کر بنیادی آئینی ڈھانچہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

ریاست اترپردیش کی حکومت کی جانب سے تبدیلی مذہب قانون بنانے کے بعد سے ہی ریاست کے متعدد اضلاع میں ہندو مسلم شادی کو پولیس نے روک دیا ہے، ایسا ہی ایک معاملہ دارالحکومت لکھنؤ میں بھی رونما ہونے کے فورا بعد پولیس نے اسے روک دیا تھا۔

رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب

لکھنؤ پولیس نے دونوں خاندان کے ذمہ داران کو سمجھایا کہ "نئے قانون کے مطابق ایسا کرنا مناسب نہیں ہے، پہلے لڑکے اور لڑکی کو ضلع مجسٹریٹ کو تبدیلی مذہب کی اطلاع دینی ہوگی، اس کے بعد ہی شادی ہو سکے گی۔"

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ یہ قانون مسلمانوں کو پریشان کرنے والا اور آئین کے خلاف بھی ہے، انہوں نے کہا کہ "اگر لڑکی مسلم اور لڑکا ہندو مذہب سے تعلق رکھتا ہے، تب شادی ہو جاتی ہے لیکن اس کے برعکس لڑکی ہندو مذہب سے ہونے پر پولیس شادی کو روک دیتی ہے اور کاروائی کرتی ہے۔"

ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے، تبدیلی مذہب قانون بنانے کا مقصد جو جس مذہب میں ہے، وہ وہیں رہیں، اکثر اوقات دیکھا جاتا ہے کہ ہندو مذہب کے لوگ مسلم یا عیسائی مذہب اختیار کر لیتے ہیں، جس کا ہمیشہ سے ہندو وادی تنظیموں نے سخت اعتراض کیا ہے۔

رہائی منچ کے صدر نے کہا کہ تبدیلی مذہب قانون ملک کے آئین کے خلاف ہے کیونکہ آئین کسی بھی مذاہب کو اپنانے کی آزادی دیتا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر اسے کورٹ میں چیلینج کیا گیا تو یہی فیصلہ ہونا چاہیے کہ "ملک کا آئین اوپر ہے اور یہ قانون اس کے خلاف۔"

قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ میں اترپردیش اور اتراکھنڈ کے تبدیلی مذہب آرڈیننس 2020 کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ آرڈیننس بنیادی حقوق چھین کر بنیادی آئینی ڈھانچہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.