ریاست اترپردیش کی حکومت کی جانب سے تبدیلی مذہب قانون بنانے کے بعد سے ہی ریاست کے متعدد اضلاع میں ہندو مسلم شادی کو پولیس نے روک دیا ہے، ایسا ہی ایک معاملہ دارالحکومت لکھنؤ میں بھی رونما ہونے کے فورا بعد پولیس نے اسے روک دیا تھا۔
لکھنؤ پولیس نے دونوں خاندان کے ذمہ داران کو سمجھایا کہ "نئے قانون کے مطابق ایسا کرنا مناسب نہیں ہے، پہلے لڑکے اور لڑکی کو ضلع مجسٹریٹ کو تبدیلی مذہب کی اطلاع دینی ہوگی، اس کے بعد ہی شادی ہو سکے گی۔"
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ یہ قانون مسلمانوں کو پریشان کرنے والا اور آئین کے خلاف بھی ہے، انہوں نے کہا کہ "اگر لڑکی مسلم اور لڑکا ہندو مذہب سے تعلق رکھتا ہے، تب شادی ہو جاتی ہے لیکن اس کے برعکس لڑکی ہندو مذہب سے ہونے پر پولیس شادی کو روک دیتی ہے اور کاروائی کرتی ہے۔"
ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے، تبدیلی مذہب قانون بنانے کا مقصد جو جس مذہب میں ہے، وہ وہیں رہیں، اکثر اوقات دیکھا جاتا ہے کہ ہندو مذہب کے لوگ مسلم یا عیسائی مذہب اختیار کر لیتے ہیں، جس کا ہمیشہ سے ہندو وادی تنظیموں نے سخت اعتراض کیا ہے۔
رہائی منچ کے صدر نے کہا کہ تبدیلی مذہب قانون ملک کے آئین کے خلاف ہے کیونکہ آئین کسی بھی مذاہب کو اپنانے کی آزادی دیتا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر اسے کورٹ میں چیلینج کیا گیا تو یہی فیصلہ ہونا چاہیے کہ "ملک کا آئین اوپر ہے اور یہ قانون اس کے خلاف۔"
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ میں اترپردیش اور اتراکھنڈ کے تبدیلی مذہب آرڈیننس 2020 کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ آرڈیننس بنیادی حقوق چھین کر بنیادی آئینی ڈھانچہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔