اترپردیش کی دارالحکومت لکھنؤ کے اسلامک سنٹر آف انڈیا میں مولانا خالد رشید فرنگی محلی کی قیادت میں 'پیغام امن کانفرنس' منعقد کی گئی۔
اس میں مختلف مذاہب کے رہنماؤں نے شرکت کی اور اس بات پر متفق ہوئے کہ کورٹ کا فیصلہ جو بھی آئے ہمیں آپس میں گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنا ہے، یہی ہمارا مشن ہے'۔
مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے اپنے خطاب میں کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک پڑوسی کے حقوق سگے بھائی سے زیادہ ہوتے ہیں۔
لہذا ہمارا ہمارے آس پاس میں جو بھی لوگ رہتے ہیں وہ ہمارے پڑوسی ہی ہوئے، چاہے جس مذہب کے پیروکار ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ وسلم نے فرمایا اللہ ایسے بندوں کو پسند نہیں کرتا ہے جو فسادات برپا کرتے'۔
اس کے بعد ہندو مذہب کے رہنما سوامی سارنگ نے کہا کہ ہم سب کا فریضہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جو بھی ہو وہ قابل قبول ہے ہمیں اس پر کوئی جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔'
لکھنؤ گرودوارہ کمیٹی کے صدر راجندرسنگھ بگہ نے کہا کہ' فیصلہ جلد ہی آنے والا ہے لہذا ہمیں اس بات پر اتفاق رائے ہونا چاہیے کہ نہ تو ہم فیصلے کا جشن منائے اور نہ ہی اس کے خلاف احتجاج کریں۔'
عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے فادر گیرالڈ جی میتھایج بشپ لکھنؤ نے امن کا پیغام دیا اور کہا کہ' ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ سماج کے سبھی لوگوں تک یہ بات پہنچائے تاکہ فیصلہ آنے کے بعد سماج میں، ملک میں بھائی چارگی بنی رہے اور کوئی فسادات نہ ہو۔'
کانفرنس کے آخر میں اس بات پر اتفاق رائے ہوئی کہ سبھی مذاہب کے رہنما اپنے لوگوں کے پاس جا کر امن و امان کا پیغام دیں۔
اس بات کو ذہن نشیں بنالیں کہ فیصلہ آنے کے بعد نہ کوئی جشن منائے اور نہ ہی کوئی سڑک پر احتجاج کرے۔ اگر اس بات کو ہم لوگ عوام تک پہنچا پائیں تو یقین ہے کہ اس فیصلے کے بعد سماج کا ماحول خراب نہیں ہوگا۔'