افسانہ اردو نثر کی شکل میں اپنے دور کے حالات اور سماج کی کیفیت کا آئینہ ہوا کرتا ہے۔افسانہ نگار اپنے افسانوں کے ذریعہ سماج کی اصلاح کا کام کرتا ہے۔یہ اردو نثر کی انتہائی مقبول صنف، جس کے فروغ میں تمام افسانہ نگاروں اور تمام اہل اردو کا وسیع تعاون رہا ہے۔
اچھا افسانہ نگار ایک سیاح کے مانند ہوتا ہے دورِ حاضر میں ہمیں افسانہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ مذکورہ خیالات کا اظہار اطہر نبی نے اسٹاررائیزنگ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت منعقد'بزم افسانہ' کی صدار ت کرتے ہوئے یوپی پریس کلب میں کیا۔بزم افسانہ کی ابتدا میں ڈاکٹر منصور حسن خان نے نعت پاک پڑھ کر نذرانۂ عقیدت پیش کی۔ مہمان خصوصی اورافسانہ نگار شاہ نواز قریشی نے کہا کہ' اردو افسانہ ارتقاء کی مختلف منزلوں سے گزرتا ہوا آج پھر اس مقام پر آگیا ہے، جہاں کہانی پن اور روش بیانیہ اسے واپس مل گیا ہے۔ڈراپ سین ایک ایسا افسانہ ہے جو اب سے چالیس پچاس پہلے کی لکھنوی معاشرت کی عکاسی پرمبنی ہے۔ لکھنؤ کی دم توڑتی معاشرت کی مجبوریوں کی بھرپور ترجمانی اس افسانہ میں موجود ہے۔ معروف افسانہ نگار محسن خان نے کہاکہ' افسانہ نگار موضوع کا خاکہ کھینچتا ہے اور اس کے تمام گوشوں پر روشنی ڈالتا ہے اور اس موضوع کی مرکزیت کی مدد سے ان خیال اور جذبات کا اظہار اپنے افسانہ میں کرتارہتا ہے، جن سے وہ متاثر ہوا ہے۔اپنی تحریرمیں افسانہ نگار مختصر اور جامع جملوں میں معنی خیز اشارات پنہاں کردیتا ہے۔ اس کا ہر لفظ جذبات و احساسات اورتجربات کا ترجمان ہوتا ہے۔افسانہ نگار عائشہ صدیقی نے کہاکہ' افسانہ اس صنف نثر کا نام ہے جس میں افسانہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشیاء یامظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طورپر گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آکر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ کسی بھی دور کو جاننا ہے تو اس دور کے افسانوں کا مطالعہ کرنا چاہئے، ماحول کا پتہ اور اندازہ ہوجائے گا۔