تاریخ کے صفحات میں کئی ایسی کہانیاں اور واقعات درج ہیں جن سے لوگ ناواقف ہیں۔ ہریانہ کے ضلع کروشیتر کے تھانیسر شہر میں شیخ چلی کا مقبرہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ اس مقبرے کی مقبولیت ہریانہ کے تاج محل کے طور پر بھی ہے اور اس کی تعمیر بھی اسی وقت ہوئی تھی جب آگرہ میں تاج محل کی تعمیر ہوئی تھی۔ کروشیتر صرف مہابھارت، شکتی پیٹھ اور دوسرے ہندو مذہب کے مقدس مقامات کے لئے ہی نہیں بلکہ شیخ چلی کے مقبرے کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔
شیخ چلی کا نام سنتے ہی شیخی بگھارنے والے شخص کا چہرہ ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے، کیونکہ عام طور پر بڑے بول اور جھوٹ بولنے والے کو شیخ چلی کہا جاتا ہے لیکن یہاں ہم ایک صوفی بزرگ کی بات کر رہے ہیں۔ اس عظیم صوفی بزرگ کا نام شیخ چلی نہیں بلکہ شیخ چہیلی تھا۔
کروشیتر کے مورخ راجندر رانا نے بتایا کہ ''تھانیسر شہر میں بنا شیخ چلی کا مقبرہ شاہ جہاں کے بڑے بیٹے دارا شکوہ نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ مقبرہ عموری طور پر شیخ چلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مگر در حقیقت وہ شیخ چہیلی تھے، جو ایران کے صوفی بزرگ تھے۔ وہ بھارت میں تبلیغ اسلام کے لیے آئے تھے اور اپنے سفر کے دوران انہوں نے بھارت میں مختلف مقامات پر قیام کیا۔ جب ان کی موت ہو گئی تو دارا شکوہ نے ان کے لئے یہ مقبرہ تعمیر کرایا۔''
شیخ چلی کا مقبرہ کروشیتر کے باہری علاقے میں ایک اونچے ٹیلے پر تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ مقبرہ بہت خوبصورت ہے جو مغل فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ مرکزی عمارت تاج محل کی طرح سنگ مرمر کے پتھر سے بنی ہے اور اس کے اپر گنبد ہے۔ اپنے منفرد اور نفیس فن تعمیرات کی وجہ سے اسے تاج محل کے بعد شمالی بھارت میں دوسرا درجہ دیا گیا ہے۔ اس مقبرے کے ٹھیک بغل میں صوفی ولی کی اہلیہ کی قبر ہے، جو ریت کے پتھر سے تیار کی گئی ہے۔
اس مقبرے کے بالکل پیچھے شیخ جلال الدین تھانیسری کی درگاہ ہے۔ شیخ جلال الدین کروشیتر کے بہت بڑے صوفی بزرگ گزرے ہیں اور ان کی درگارہ پر ہی مغل بادشاہ ہمایوں نے اولاد کے لئے دعا کی تھی۔ اسی وجہ سے اکبر کے نام میں جلال الدین جوڑا گیا۔ اکبر خود بھی دو بار شیخ جلال الیدن تھانیسری کے مقبرے پر حاظری دینے آئے تھے۔