جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام کے دور دراز علاقہ نور آباد سے ایک دل دہلا دینے والا ویڈیو سامنے آیا جس میں ایک تعلیمیافتہ بیروزگار نوجوان خودکشی سے قبل اسکی ایک بھیانک تاویل پیش کررہا ہے۔
شعیب بشیر نامی نوجوان یاس و ناامیدی کے عالم میں خودکشی سے قبل ویڈیو ریکارڈ کرتا ہے اور اپنے والد کی عرصہ دراز سے بند پڑی تنخواہ سے ہونے والی گھریلو پریشانیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ ایک تغلقی حکمنامے کے تحت انکے والد تنخواہ سے محروم کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کا کنبہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہا ہے۔
نوجوان نے اس امید میں جان دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پتھر دل حکمرانوں کا دل پسیج جائے اور ان کے اس اقدام سے ان کے والد اور دیگر ایسے اساتذہ کی تنخواہیں واگزار کی جائیں۔
شعیب کے والد گذشتہ 15 سال سے محکمہ تعلیم میں کام کر رہے تھے اور ویری فیکشن کے سلسلے میں ان کی تنخواہ ڈھائی برس سے بند رکھی گئی ہے۔ ویری فیکشن اس لئے کی گئی ہے کیونکہ شعیب کے والد ماضی میں عسکریت پسند رہے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ پولیس کی سی آئی ڈی ونگ کی جانب سے ان کو کلین چٹ دی گئی ہے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے دفتر میں 75 سے زائد ایسے کیسز کو التواء میں رکھا گیا ہے۔
جہاں حکومت آئے روز دعویٰ کرتی ہے کہ عسکریت کا راستہ ترک کرنے والے افراد کی بازآبادکاری کی جائے گی بشیر احمد میر کے معاملے میں حقیقت بالکل برعکس ہے۔ یہاں ایک سابق عسکریت پسند کا بیٹا کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے سے تنگ آکر موت کو گلے لگاتا ہے۔
شعیب بشیر ایک ہونہار طالب علم تھا اور ایم اے، بی ایڈ کی ڈگری حاصل کر چکا ہے۔ ڈگری حاصل کرنے کے باوجود بھی وہ مزدوری کر کے مزید پڑھائے کے لئے پیسے اکٹھا کرتا تھا لیکن۔۔ بلآخر حالات سے بیزار ہو کر انہوں نے زندگی کا خاتمہ کیا۔ ظاہر ہے کہ خودکشی کا انتہائی اقدام، ایک مخصوص ذہنی حالت میں کیا جاتا ہے۔
- یہ بھی پڑھیں: ڈھائی برسوں سے والد کی تنخواہ بند، فرزند نے کی خودکشی
یہ ویڈیو سامنے آتے ہی سماجی حلقوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور محکمہ تعلیم و حکومت کی بے حسی کے خلاف برہمی کا اظہار کیا گیا۔
اتنا ہی نہیں بلکہ سیاسی سطح پر نوجوان کی موت کو 'قتل' قرار دیا گیا۔
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے حکومت و انتظامیہ کی نا اہلی کو شعیب کی موت کا ذمہ دار قرار دیا۔
نوجوان اپنے ویڈیو پیغام میں والدین سے اپیل کررہا ہے کہ وہ اس اقدام پر صبر کریں جس طرح وہ ماضی میں کرتے آرہے ہیں۔ لیکن شعیب کے والد نے بتایا کہ شعیب کے اسطرح کے اقدام سے ان کی بچی کھچی ہمت بھی جواب دے گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا موت کی تحقیقات کی جائے گی اور جن افسروں یا اہلکاروں کی نااہلی کی وجہ سے یہ نوجوان انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہوا، انکے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے گا۔