جو نوجوان پریشان ہوں اور روزگار حاصل کرنے میں کافی دشواری پیش آرہی ہو تو انہیں پون، برج اور اشوک کی طرح مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے اور سخت محنت کرنا چاہئے۔
یہ تینوں دوست کاشتکاری کرتے ہیں لیکن یہ کاشتکاری زمین پر نہیں بلکہ زیرے پر کرتے ہیں۔
تقریباً 200 سال قبل بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے ضلع کوربا ہیڈکواٹر سے 25 کلو میٹر کے فاصلے پر کٹگھورہ ڈویلپمنٹ بلاک کے ڈانڈپارا کے چھوٹے اور پسماندہ کسانوں کو ہسدیو ندی نے یہ جزیرہ تحفے کے طور پر دیا تھا۔ یہ جزیرہ دریا میں سیلاب کے باعث پہنچنے والی مٹی اور دریا میں آبی سطح کے کم ہونے سے بنا ہے۔ جس وقت زراعت کی زمین پر رہائشی کالنیاں آباد ہو گئی مقامی باشندوں کے سامنے خردنی اشیا کا بحران پیدا ہو گیا، اس وقت یہ جزیرہ 80 کنبے کے لئے زندگی گزارنے کا ذریعہ بنا۔
جب ذریعہ معاش کے ذرائع نہیں مل پائے اور یہاں کے مقامی لوگوں کا گزارا مشکل ہونے لگا تو پون، برج اور اشوک جیسے 80 خاندانوں نے ڈنڈپارہ جزیرے پر زراعت کرنا شروع کر دیا لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ انہیں سارے کام کشتی سے کرنے پڑتے ہیں یعنی ہمیشہ دوگنی محنت کرنی پڑتی ہے۔
اشوک نے بتایا کہ ''یہاں آنے کے لئے کسی کو بھی کشتی کے ذریعے آنا پڑتا ہے۔ سبھی لوگوں کو ہل، بھینس اور بیل کشتی سے ہی لانا پڑتا ہے۔ ہم لوگ فاگن چت کے مہینے میں ہل چلانا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے بعد آسن اور ساون کے مہینے میں پودے لگاتے ہیں۔''
ڈانڈپارہ جزیرے پر دھان کی کاشت کی جاتی ہے، یہاں لوگ ماہی گیری بھی کرتے ہیں۔ کشتی چلانے کا فن تو یہاں وراثت میں ہی ملا ہے، مقامی باشندے کشتی کی مدد سے جزیرے پر پہنچتے ہیں اور زراعت کا سامان بھی کشتی سے یہاں پہنچاتے ہیں اور جب فصل تیار ہو جاتی ہے تو اس کی کٹائی کے بعد اسے کشتی سے ہی واپس لے جاتے ہیں، یہ کسان اتنا دھان پیدا کر لیتے ہیں کہ سال بھر ان کے سامنے کھانے کی اشیا کا کوئی بحران پیدا نہ ہوتا ہے۔
مقامی نوجوان برج لال نے بتایا کہ ''پہلے یہاں ندی تھی، سیلاب سے مٹی جم گئی، جس سے یہ مقام اونچا ہو گیا، ہمارے گاؤں میں زراعت نہیں ہوتی تھی کیونکہ میدانی علاقوں میں کالونیاں آباد ہوچکی تھیں۔ اب یہاں پورا گاؤں زراعت کرتا ہے۔''
مقامی کاشتکاروں نے دھان کی خریداری کے لئے اپنا اندراج نہیں کرایا ہے جبکہ گزشتہ برس ضلع کوربا میں کل 32،500 کسانوں نے دھان بیچنے کے لئے اندراج کرایا تھا۔ اس کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ کسان اپنا دھان فروخت نہیں کرتے ہیں بلکہ صرف اپنے گزارے کے لئے رکتھے ہیں لیکن کچھ کسانوں نے جب رجسٹریشن کرانے کوشش کی تو وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔
کوربا کے زراعتی افسر کا کہنا ہے کہ ''اس میں انتظامیہ کی ہدایت پر گداولی والے کسان تھے، انہیں بھوئیاں سافٹویئر کے ذریعے لنک کیا گیا تھا۔ اسی کی بنیاد پر رجسٹریشن کی کاروائی کی گئی ہے۔ اگر ان کا بھوئیاں سافٹویئر میں لنک رہا ہوگا، تب ہی نام آیا ہوگا ورنہ نہیں آیا ہوگا۔''
بھلے ہی یہ 80 کنبے اپنا پیٹ پالنے کے لئے جزیرے پر کھیتی کر رہے ہوں لیکن ان کی بہتری اور منافع میں اضافہ کرنے کے لئے حکومت کو مدد کرنی چاہئے تبھی یہاں کے مقامی لوگ بھی ملک کے دوسرے لوگوں کی طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔