مغربی بنگال کی حکومت کی جانب سے کولکاتا پولیس میں سویک پولیس (civic police) کی تشکیل کا حکم ہمیشہ سے ہی تنازع کا شکار رہا ہے۔
اکثر و بیشتر سویک پولیس کے حوالے سے تنازع ہوتا رہتا ہے۔ کہیں سویک پولیس نے راہگیر کی پٹائی کر دی تو کہیں من چلے نوجوان ان کی پٹائی کرکے فرار ہو جاتے ہیں۔
بعض مقامات پر ٹریفک سرجنٹ و پولیس اہلکار کھڑے رہتے ہیں وہاں سویک پولیس گاڑیوں کی تلاشی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
حالانکہ کولکاتا پولیس کا شمار بھارت کی بہترین پولیس میں ہوتا ہے لیکن جہاں تک سویک پولیس کا سوال ہے تو ان سے متعلق اکثر و بیشتر شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں۔
2011 میں ممتابنرجی کی سیاسی جماعت ترنمول کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد سویک پولیس کو نظم گیا۔
سویک پولیس کے منصوبے کے ذریعہ بے روزگاری کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سینکڑوں نوجوانوں کو اس منصوبے کے تحت ملازمت دی گئی ہے۔
سویک پولیس کو ماہانہ نو ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے۔ کئی سویک پولیس کے اہلکاروں سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے کیمرے کے سامنے کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا لیکن آف دی ریکارڈ بہت ساری بات کہیں جس میں تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ سرفہرست ہے۔
واضح رہے کہ جنوبی کولکاتا کے ایکسائڈ موڑ پر ایک سویک پولیس اہلکار نے ایک نوجوان کو چور کے شبہ میں پکڑ کر پہلے اس کی بے رحمی سے پٹائی کی اور اس کے بعد اس کے سینے پر پاوں رکھ دیا۔
رایگیروں نے اس پورے معاملے کو اپنے اپنے موبائل کیمرے میں قید کرکے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔ ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی کولکاتا پولیس حرکت میں آ گئی۔
کولکاتا پولیس کمشنر سومن مترا نے چور کے شبہ میں نوجوان کے سینے پر پاوں رکھنے والے سویک پولیس اہلکار کو برخاست کرنے کا حکم دیا۔