کولکاتا: مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے بعد بی جے پی ترنمول کانگریس کے گڑھ میں سیندھ لگانے کی کوشش کررہی ہے وہیں ترنمول کانگریس اپنے قلعہ کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
بھوانی پور اسمبلی جہاں سے وزیرا علیٰ ممتا بنرجی کو سنہ 2011 سے ہی کامیابی ملتی رہیں مگر 2019 میں ترنمول کانگریس کو اس حلقے میں سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا تھا اور محض 3 ہزار ووٹوں سے سبقت ملی تھی۔ اسی درمیان ممتا بنرجی نے نندی گرام سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کتنا درست ثابت ہوسکتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ وہ نندی گرام کے ساتھ بھوانی پور سے بھی انتخا لڑسکتی ہیں۔
ایسے ترنمول کانگریس دعویٰ کررہی ہے کہ 294 اسمبلی حلقوں میں پارٹی 250 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرے گی اور بی جے پی نے 200 سیٹوں پر جیت حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ سنہ2011 میں ممتا بنرجی نے بھوانی پور سیٹ میں ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم 2019کے لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی نے ترنمول کانگریس کو کڑی ٹکر دی تھی اور بی جے پی کے امیدوار چند کمار بوس نے 58000 ہزار ووٹوں حاصل کیے تھے۔ ترنمول کانگریس کے امیدوار مالا رائے کو 61000 افراد نے ووٹ دیا تھا۔ یعنی ان دونوں کے مابین صرف 3000 ووٹوں کا فرق تھا۔
کڑے مقابلے کے امکان کے پیش نظر ہی ترنمو ل کانگریس کے انتخابی حکمت عملی کار نے ممتا بنرجی کو محفوظ سیٹ سے انتخاب لڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ مگر ممتا بنرجی نے اس کو سیاسی مواقع پیدا کرنے کےلیے استعمال کیا۔ نندی گرام جہاں حصول اراضی تحریک کی وجہ سے ممتا بنرجی نے عروج حاصل کیا تھا۔ وہاں سے منتخب ممبر اسمبلی شوبھندو ادھیکاری کے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد ممتا بنرجی نے اچانک نندی گرام سے انتخاب لڑنے کا اعلان کرکے سب کو چون کادیا ہے۔
کولکاتا کے جنوبی کولکاتا لوک سبھا حلقہ میں آنے والی اس اسمبلی حلقہ میں 100 فیصد رائے دہندگان شہری ہیں۔ شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کا تناسب بالترتیب 2.32 اور 0.26 فیصد وورٹر ہیں۔ اس علاقے میں بسنے والے زیادہ تر ووٹرز بنگالی اور ہندی بولنے والے ہیں اور ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کرنے والے نیتا جی سبھاش چندر بوس اور دیش بھنڈو چترنجن داس جیسے انقلابیوں کے اہل خانہ کے مکانات بھی اسی حلقے میں ہیں۔
2019 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران یہاں کے رائے دہندگان نے ووٹ ڈالنے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی اور صرف67.73 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے وقت یہاں 269 پولنگ اسٹیشن موجود تھے اور اس علاقے میں انتخابی تشدد بھی ہوئے تھے۔ تاہم 2016 اسمبلی انتخابات کے دوران ووٹروں کی تعداد 60.83 فیصد تھی۔ وزیر اعلی ممتا بنرجی نے 2016 کے اسمبلی انتخابات میں اس وی آئی پی سیٹ سے کامیابی حاصل کی تھی۔ انہیں کل 65520 ووٹ یعنی 47.67 فیصد لوگوں نے ووٹ دیا۔ خاص بات یہ ہے کہ 2011 کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں ان کے ووٹوں کی شرح میں29.72 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ان کے حریف امیدوار کانگریس کے دیپا داس منشی تھے، جنھیں 40219 ووٹ ملے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار چندر کمار بوس امیدوار تھے جن کو صرف 19.13 فیصد یعنی 26299 لوگوں نے ووٹ ملے تھے۔
اگرچہ ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے 2021 کے اسمبلی انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان نہیں کیا ہے، لیکن امید ہے کہ اس بار سہ رخی مقابلہ ہوگا۔ تاہم لوک سبھا انتخابات کے دوران، بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنا مضبوط دعوی یہاں پیش کیا تھا، لیکن اس بار سی پی آئی (ایم) اور کانگریس اتحاد میں امیدوار کھڑا کررہی ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس بار بھی سی پی آئی-ایم اتحاد کے ذریعہ دیپا داس منشی جیسے مضبوط امیدوار کو میدان میں اتارے۔ اگر ممتا بنرجی الیکشن نہیں لڑتی ہیں، تو توقع کی جارہی ہے کہ ترنمول کانگریس کابینہ کے کسی ایک وزیر کو یہاں سے امیدوار بنائے۔
چندر کمار بوس اس وقت بی جے پی سے دور ہیں، گرچہ نیتاجی جینتی کے موقع پر وہ وزیر اعظم کے ساتھ نظر آئے مگر شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے موضوع پر پارٹی کے موقف کے خلاف بیانات دئے تھے۔ بی جے پی نے انہیں تنظیمی عہدہ سے بھی ہٹادیا ہے اور زیادہ امکان ہے کہ انہیں اس مرتبہ امیدوار نہیں بنایا جائے گا۔ اب یہ دیکھنے کے قابل ہوگا کہ بی جے پی کا امیدوار کون ہوگا اور 2019جیسی کامیابی دوبارہ مل پائے گی یا نہیں۔
یواین آئی