لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام طرح کی تعلیمی ادارے بند ہونے کے سبب آن لائن کلاسز متبادل کے طور پر سامنے آیا۔ لیکن آن لائن کلاسز نے جہاں ایک طرف تعلیمی سرگرمی جاری رکھنے میں مدد گار ثابت ہوئی تو دوسری جانب اس کا بچوں کی صحت پر مضر اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ خصوصی طور پر بچوں کی آنکھوں پر اس کا خاصا اثر ہوا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران آنکھوں کی شکایت میں اضافہ ہوا ہے۔
آج سے تقربیاً ڈیڑھ برس قبل جب کورونا وائرس نے دستک دی تو زندگی ایک طرح سے محدود ہو گئی۔ لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ زندگی کی تمام تر سرگرمیاں ٹھپ پڑ گئیں۔ دفاتر اسکول کالج سب بند ہو گئے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے معمولات زندگی مفلوج ہونے کے ساتھ ساتھ آمدنی کے ذرائع بھی بند ہو گئے۔ ایسے میں زندگی کی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے آن لائن کام کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ چاہیے وہ دفاتر یوں یا تعلیمی ادارے انہوں نے اپنی سرگرمی جاری رکھنے کے لئے آن لائن کام کرنا شروع کیا۔ بچوں کی تعلیم متاثر نہ ہو اس کے لیے آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بہت حد تک آن لائن کلاسس نے روایتی کلاسز کی کمی پوری کرنے میں کامیاب رہی۔ لیکن آن لائین کلاسز کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ گھنٹوں کمپیوٹر اور موبائل فون کی اسکرین پر نظریں جمائے رکھنے کی وجہ سے بچوں کی آنکھوں پر مضر اثرات ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بچے اسکول جانا چاہتے ہیں۔
آن لائن کلاسز کے تعلق سے ایک طالب علم انس کا کہنا ہے کہ گرچہ آن لائن کلاسز سے ہمیں کئی آسانیاں فراہم کی ہے اور کبھی کبھی ہمیں اچھا لگتا ہے کہ ہم دن بھر گھر میں رہتے ہیں اس کی بھی خوشی ہے تو دوسری جانب ہمیں اسکول کی یاد بھی آتی ہے کہ کب لاک ڈاؤن ختم ہو اسکول کھل جائیں۔ آن لائن کلاسز پانچ گھنٹے جاری رہتا ہے۔ اتنی دیر مسلسل کمپیوٹرز کے اسکرین پر نظر جمائے رکھنے کی وجہ سے آنکھوں میں جلن محسوس ہوتی ہے کلاسز کرنے کے بعد بہت زیادہ تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔'
آن لائن کلاسس شروع ہونے کے بعد سے آنکھوں کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے۔ روز بروز آنکھوں کے ڈاکٹروں کے پاس مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے کولکاتا کے معروف آنکھوں کے ڈاکٹر شیخ آروفل سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران آنکھوں کی جو عام سے شکایتیں ہیں ان میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف بچوں میں نہیں بلکہ بڑوں کو بھی آنکھوں میں نئے طور پر پریشانیاں ہو رہی ہیں۔ چونکہ اچانک سے بچوں کو کئی گھنٹے کمپیوٹر یا موبائل فون پر وقت گذر رہا ہے۔ اس کا ان کے آنکھوں پر اثر پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب 24 گھنٹے گھر میں رہنے سے آنکھوں کو سورج کی روشنی نہیں مل رہی اور نہ ہی ماحول کا نظارہ کر پا رہے ہیں۔ آنکھوں کو کھلے ماحول کا مظارہ نہ ملنے سے بھی آنکھوں کو نقصان ہو رہا ہے۔ اس لیے کھلے ماحول میں نکلنے اور آس پاس کی قدرتی وسائل کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔ سورج کی روشنی میں باہر نکلنا اور ماحول کا نظارہ کرنا بھی آنکھوں کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آنکھوں کے امراض میں لاک ڈاؤن کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ بچے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اس کی ایک وجہ آن لائن کلاسس کے علاوہ آنکھوں کو ایکسپوزر نہ ملنا بھی ہے۔ اس دوران آنکھوں میں سب سے زیادہ جو شکایت ہے وہ آنکھوں میں ڈرائی نیس آئی ہے۔ آنکھوں کے سوکھے پن میں اضافہ ہوا اور بچوں کا منفی پاؤر کے معاملے میں اضافہ ہوا ہے۔'