کورونا وائرس نے پوری دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔ اب تک اس وائرس کی دوا نہیں بنائی جاسکی۔ سماجی دوری کے ذریعے اس وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔
بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی نے سماجی دوری کی اپیل کرتے ہوئے 3 مئی تک لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے۔ سماجی دوری کے لئے صرف چالیس دن کی بات کی گئی ہے۔ لیکن ریاست بہار کے ضلع کٹیہار کا ایک گاؤں ایسا ہے جو پچھلے چار برسوں سے معاشرتی فاصلے پر عمل پیرا ہے۔
پورنیہ بارڈر پر واقع دیوان گنج مہلدار گاؤں کے دیہاتی گزشتہ 4 برسوں سے سماجی دوری پر گامزن ہیں۔
دراصل اس گاؤں نے براہ راست اپنی آنکھوں سے اس طرح کی وبا کو دیکھا ہے۔ جس نے ان میں سماجی دوری برقرار رکھنے کی عادت ڈال رکھی ہے۔
اس گاؤں کے تقریبا 200 مکانات سنہ 2016 میں ایک خوفناک وبا کا شکار ہوئے تھے جس کے بعد یہ اب بھی سماجی دوری برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
سنہ 2016 میں کٹیہار کے اس گاؤں میں چیچک سے لے کر جلد کی بیماری پھیلی تھی، ہر ایک اس وبا کی گرفت میں تھا، بہت سے بچے فوت ہوگئے، لہذا ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے اس گاؤں کے لوگوں کو صفائی کو برقرار رکھنے اور سماجی دوری بنانے کی ہدایت کی۔
اس کے بعد سے یہاں کے لوگوں نے اسے اپنی روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنالیا ہے۔ آج گاؤں میں کوئی وبا نہیں ہے لیکن لوگوں کو یقینی طور پر سماجی دوری برقرار رکھنے کی عادت ہوچکی ہے۔
سنہ 2016 میں اس وبا سے گاؤں کی صورتحال یہ تھی کہ آج بھی لوگ دوسری بیماریوں کو دیکھ کر چوکنا ہوجاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں اس گاؤں کے لوگ صفائی پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق گاؤں میں تعمیر کیے جانے والے مکانات بھی سماجی دوری کو دیکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ ابھی پورے ملک میں پھیلے کورونا وبا کا اثر اس گاؤں میں نظر آرہا ہے لیکن وزیر اعظم کی اپیل کے بعد لوگ سماجی دوری پر پوری طرح عمل پیرا ہیں۔
مقامی سربراہ نے پورے گاؤں میں ڈی ڈی ٹی اسپرے کرائی ہے۔نیز گاؤں والوں کے درمیان سینیٹائزر اور ماسک بھی تقسیم کردیئے گئے ہیں۔
مقامی اور سابق سرپنچ انارسی پرساد کا کہنا ہے کہ سنہ 2016 میں چیچک کی خوفناک وبا کی وجہ سے بہت سارے بچے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
جس کے بعد باہر سے ٹیم یہاں تفتیش کے لئے آئی لوگوں کو ہدایات دی گئیں کہ تب سے گاؤں کے لوگ سماجی دوری پر عمل پیرا ہیں۔
پردیپ کمار ساہ کہتے ہیں کہ ڈبلیو ایچ او کی ٹیم سنہ 2016 میں خوفناک وبا کے بعد یہاں پہنچی تھی۔ ٹیم نے جو جو تد بیریں بتائیں ہم سب نے اس پر عمل کیا ۔ اس کے بعد ہم نے بیماری کو شکست دی۔ آج کورونا وائرس کے خلاف بھی سماجی دوری کی بات کی جارہی ہے۔ ہم مسلسل اس پر عمل پیرا ہیں۔
واضح رہے کہ اس گاؤں میں ایک نوجوان کے بیرون ملک سے لوٹنے کے بعد یہ وبا پھیلی تھی اس وقت وبا نے لگ بھگ 350 افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس کے بعد اس معاملے کو اسمبلی میں اٹھایا گیا تب محکمہ صحت نے ڈبلیو ایچ او کی ٹیم یہاں کے لیے روانہ کیا تھا۔
چار برس پہلے اس گاؤں کے لوگوں نے سماجی دوری کی پیروی کی تھی اور اس وبائی امراض کے خلاف جنگ جیت لی تھی۔ آج بھی گاؤں کے لوگوں میں سماجی دوری کی عادت انہیں کرونا کے خلاف جاری جنگ کے لئے مضبوط بنا رہی ہے۔
گاؤں کے لوگ قوم کو یہ پیغام دیتے نظر آتے ہیں کہ اگر زندگی ہے تو دنیا ہے دور دور سے سلام بہتر ہے۔