مولانا اسحاق نہ صرف ایک عالم دین تھے بلکہ وہ ایک زندہ دل انسان بھی تھے،جنہوں نے عوام تک دین کی باتیں پہنچانے میں اہم کردرار ادا کیا۔
ان کا انتقال گذشتہ دنوں 9 اکتوبر 2019 کو ہوگیا۔
مولانا اسحاق کے اتنقال کے بعد ارریہ شہر کے علما و دانشوران نے ایک تعزیتی نششت رکھی۔
جامع مسجد میں مولانا اسحاق کے وفات پر علماء و دانشوران نے ایک تعزیتی نشست 11 اکتوبر 2019 کو رکھی گئی۔اس میں شہر و اطراف کے دینی، ملی، سماجی، دانشوران و علماء کرام شامل ہوئے اور مولانا مرحوم کی شخصیت کے ہمہ جہت پہلو پر اظہار خیال کیا۔
سہ ماہی چشمہ رحمت (ارریہ) کے مدیر اعلیٰ مفتی حسین احمد ہمدم نے کہا کہ' مولانا اسحاق مختلف اوصاف و کمالات کے حامل قدیم وضع قطع کے ایک با عمل عالم دین تھے، وہ ایک بہترین خطیب تھے۔'
مولانا مرحوم نے تقریباً نصف صدی تک لوگوں کے درمیان وعظ و نصیحت، بذلہ سنجی اور علم و حکمت کے موتی بکھیرتے رہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ عوام و خواص دونوں کے درمیان بے حد مقبول تھے۔
اس موقع پر جامع مسجد(ارریہ) کے امام و خطیب مولانا آفتاب عالم مظاہری نے کہا کہ مولانا کی ذات اہل ارریہ والوں کے لیے غنیمت تھی، آپ عالم با عمل تھے، مولانا کی ذات سے سینکڑوں لوگ فیضیاب ہوئے۔
جامع مسجد کمیٹی کے صدر الحاج سید شمیم انور نے کہا کہ آپ قومی ہم آہنگی فکر کے حامل تھے، مولانا مساجد کی تعمیر میں پیش پیش رہا کرتے تھے، آپ کی تحریک پر ارریہ میں متعدد مساجد کا قیام عمل میں آیا۔
قاری نیاز احمد قاسمی نے کہا کہ مولانا کی زندگی سے ہمیں سبق لینی چاہئے کہ کس طرح انہوں نے خاکساری و عاجزی کی زندگی گزاری۔
مفتی ہمایوں اقبال ندوی نے کہا کہ مولانا علاقے میں تبلیغی جماعت کے کاموں کو پھیلانے والے ابتدائی اور بنیادی اہم افراد میں سے تھے، انہوں نے پوری زندگی اس کام میں لگائی اور اس کے معمولات میں پابند رہے، حالانکہ وہ اپنے آخری ایام میں کام کرنے والوں کی بعض بے اعتدالیوں پر بڑے فکر مند رہا کرتے تھے۔
تعزیتی نشست میں شرکت کرنے والوں میں سرور عالم، معراج خالد مصباحی، مولانا شمشاد عالم، قاری نیاز احمد ، قاری امتیاز احمد اور مولانا مرحوم کے اعزا و اقربا نے بھی شرکت کی۔
نشست کے بعد مفتی حسین احمد ہمدم نے اعلان کیا رواں ماہ 27 اکتوبر کو مولانا مرحوم کے آبائی گاؤں تارن کے مدرسہ میں بھی ایک اجلاس منعقد کیا جائے گا۔