کانپور کے مسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ مسلم علاقے میں مل کر گزشتہ شب ہولیکا جلانے کا اہتمام کیا اور گلے مل کر ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلائیں۔
گنگا اور جمنا کے دوآبہ میں بسا کانپور شہر ہمیشہ سے حساس شہر رہا ہے، زمانہ قدیم میں کبھی یہ کالا پانی کی سزا بھگتنے کے لیے جانا جاتا تھا۔
انگریزوں نے یہاں اپنی چھاؤنی بناکر کر اسے سیاست کا گہوارا بنا دیا۔ انگریزوں نے اپنی ڈیوائڈ اینڈ رول کی سیاست کے تحت یہاں کئی فساد کرائے جس میں 1931 کے فساد نے کانپور کی تاریخ ہی بدل دی۔
صدیوں سے ساتھ ساتھ رہ رہے ہندو اور مسلمان قوم میں ایسی نفرت پھیلی کہ دونوں قوموں کی آبادیاں الگ الگ رہنے لگیں۔
ہندو اکثریت والے علاقے میں رہنے والے مسلمان مسلم اکثریت والے علاقے میں آکر بس گئے اور مسلم اکثریت والی آبادی میں رہنے والے ہندو ہجرت کرکے ہندو اکثریت والے علاقوں میں بس گئے۔
نفرت شباب پر ضرور تھی لیکن پھر بھی دونوں قوموں میں محبت بھی قائم تھی اور محبت کی نظیریں بھی پیش کی جاتی رہی ہیں۔ جس کی ایک نظیر کانپور میں ہولی کے تہوار پر نظر آئی۔
کانپور کے بیکن گنج علاقہ میں ہوری لال کا خاندان وہ تنہا خاندان ہے جو مسلم علاقہ میں اکیلا رہتا ہے، ہوری لال کے خاندان کے علاوہ اس علاقہ میں دور دور تک کوئی بھی دوسرا ہندو خاندان نہیں رہتا ہے۔
تمام مسلم علاقوں میں جہاں کبھی ہولیکا جلائی جاتی تھی اب بھلے وہ علاقے خاموش ہوں لیکن بیکن گنج علاقہ میں عرصہ قدیم اور انگریزوں کے وقت سے چلی آ رہی روایت کو ہوری لال کا خاندان اپنے مسلم پڑوسیوں کے ساتھ آج بھی قائم رکھے ہوئے ہے۔
ہوری لال کے خاندان کے ساتھ ساتھ علاقہ کے تمام مسلمان کھڑے ہوکر کر ہولی کا تہوار ساتھ ساتھ مناتے ہیں، ہولیکا کے لئے لیے لکڑی اکھٹا کرتے ہیں، جس میں مسلمان اپنا تعاون دیتے ہیں اور پھر ساتھ میں کھڑے ہوکر ہولیکا جلاتے ہیں۔
اس کے بعد آپس میں ہولی کی ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں، ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلاتے ہیں۔ محبت کی یہ بے مثال نظیر کانپور کے اس حساس علاقہ میں آج بھی قائم ہے جو پورے ملک کے لیے امن و محبت کی اور قومی یکجہتی کی ایک نمایاں مثال ہے۔
ہوری لال کا خاندان بیکن گنج علاقہ کے بھینسیا احاطے میں رہتا ہے یہاں اسے مسلمانوں کے بیچ میں آپس میں جو پیار اور محبت ملتی ہے وہ اسے دیگر علاقوں میں رہنے والے اپنے عزیز داروں کے یہاں بھی نہیں ملتا ہے، مسلمانوں کے بیچ میں ہوری لال کے خاندان کو اتنا سکون ملتا ہے کہ وہ اس علاقے کو چھوڑ کر جانے کی کبھی سوچتے بھی نہیں۔
اگر کوئی اس سے مذاق میں بھی ہندو علاقہ میں بس جانے کے لیے طنز بھی کرتا ہے تو وہ اس سے لڑ جاتا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ان علاقوں سے زیادہ یہاں محبت پاتا ہوں، یہاں دوسری جگہوں سے زیادہ محفوظ ہے۔