جموں: جموں وکشمیر کی سرمائی دارالحکومت جموں میں دس برسوں سے زائد وقت سے کسمپرسی کی زندگی گزر بسر کرنے والے پناہ گزین روہنگیائی مسلمان خوف کے سائے میں اپنی زندگی گزر بسر کررہےRohingya Refugee In Jammuہیں۔انہیں اس بات کا ڈر ہیں کہ سنہ 2021 کی طرح انتظامیہ انہیں ہیرانگر جیل منتقل نہ کردے جہاں سے انہیں واپس اپنے ملک میانمار بھیج دیا جاتا ہے۔ Rohingya Refugee In Hiranagar Jail۔ روہنگیا پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ اس وقت ہیرا نگر جیل میں تقربیاً 150 روہنگیا پناہ گزیں ہیں اور ان میں سے چند افراد کو واپس اپنے ملک میانمار بھیج دیا گیا۔جموں کے کئی علاقوں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ خاندان اس قدر خوفزدہ ہے کہ بیشتر پناہ گزین رات بھر جاگتے رہتے ہیں، تاکہ پولیس انہیں رات کے اندھیرے میں اٹھا نہ لے اور واپس انہیں ان کے ملک نہ بھیج دے۔
روہنگیا مسلمان محمد ادریس کی ٹانگ میں سنہ 2012 میں میانمار میں گولی لگی، جس کی وجہ سے ان کی ٹانگ کاٹنی پڑی تھی اور وہ سنہ 2012 میں جموں آئے تھے۔محمد ادریس کو ڈر ہے کہ کہیں انہیں حکومت ہولڈنگ سنٹر منتقل نہ کردے، جس طرح دیگر پناہ گزینوں کو ہیرانگر جیل منتقل کیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف ظلم تشدد ہونے کی وجہ سے انہیں کئی ملکوں میں ہجرت کرنی پڑی اور ہمیں یو این ایچ آر کی طرح رفوجی بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ جب تک میانمار میں حالت ٹھیک نہ ہوجائے تب تک ہمیں یہی رہنے دیا جائے۔
مزید پڑھیں:
اور ایک پناہ گزین اختر حسین جان کے ماں باپ کو پچھلے سال جموں و کشمیر انتظامیہ نے ہیرانگر جیل منتقل کر دیا اور جیل میں ان کی ماں کی موت واقع ہوئی تھی، جس کے بعد انہیں جموں تلاب تلو میں دفن کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ابھی بھی ان کے 7 قریبی رشتہ دار جیل میں ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ انتظامیہ انہیں میانمار منتقل نہ کرے۔
ایک اعداد وشمار کے مطابق جموں اور سانبہ اضلاع کے مختلف مقامات پر 6500 سے زیادہ روہنگیا مسلمان مقیم ہیں۔واضح رہے کہ ہزاروں روہنگیا پناہ گزین دس سال قبل میانمار میں مسلم نسل کشی کی لہر سے جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچے جہاں سے وہ بھارت میں داخل ہوگئے۔ اُن پناہ گزیں میں سے بیشتر نے جموں کا رُخ کیا اور یہاں شہر کے نواحی علاقوں نروال، بھٹنڈی، کرانہ تالاب میں زمینداروں کے خالی احاطوں میں کرایہ کے عوض مقیم ہوگئے۔