قومی سلامتی مشیر کی دعوت پر دئے گئے ظہرانے میں کئی کشمیری رہنما بھی شامل ہوئے جنہیں 5 اگست کے بعد حکام نے نظر بند نہیں کیا تھا۔
یہ پہلی بار ہے کہ حکومت کی طرف سے شروع کی گئی کسی پہل میں مقامی کشمیری رہنماؤں نے شرکت کی۔
خبروں کے مطابق جو کشمیر سے تعلق رکھنے والے جن افراد نے ظہرانے میں شرکت کی اور ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کی ان میں مظفر حسین بیگ، سید الطاف بخاری، عثمان مجید، امیتابھ مٹو اور شمیم معراج شامل ہیں۔
مظفر بیگ، سابق پارلیمنٹ میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ پر بارہمولہ سے منتخب ہوئے تھے۔ وہ غلام نبی آزاد کے دور حکومت میں نائب وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں ۔ عثمان مجید، بانڈی پورہ اسمبلی حلقے سے منتخب ہوئے تھے، وہ بھی غلام نبی آزاد کی حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں لیکن انکی اصل شناخت ایک سابق عسکریت پسند لیڈر کی ہے جنہوں نے بندوقق کا راستہ ترک کیا تھا اور قومی سیاست میں شرکت کی تھی۔ عثمان مجید ، ملیٹنسی مخالف کارروائیوں میں شریک رہے ہیں اور کونٹر انسرجنسی کے لیڈر کوکہ پرے کے قریبی ساتھی تھے جنہیں لشکر طہبہ کے عسکریت پسندوں نے 2003 میں ہلاک کردیا۔
الطاف ، محبوبہ مفتی کی حکومت میں وزیر خزانہ تھے لیکن حکومت گرنے کے فوراً بعد انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ بخاری، جو کشمیر کے بڑے تاجروں میں بھی شمار ہوتے ہیں، کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے مفتی محمد سعید کی وفات کے بعد پی ڈی پی کو توڑکر حکومت بنانے کی کوشش کی تھی جسکی بھنک پاتے ہیں محبوبہ مفتی نے حکومت بنانے کی حامی بھری تھی۔ اس سے قبل وہ شرائط کے تحت حکومت بنانا چاہتی تھیں۔
امیتابھ مٹو، کشمیری ہندو طبقے سے تعلق رکھنے والے سرکردہ دانشور ہیں۔ مٹو پی ڈی پی، بھاجپا اتحاد کے دوران وزرائے اعلیٰ مفتی سعید اور محبوبہ مفتی کے سیاسی صلاح کار رہے لیکن حکومت ختم ہونے کے بعد ہی پارٹی سے علیحدگی اختیار کی۔ وہ جموں یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے ہیں۔
شمیم معراج، ماضی میں جرنلسٹ رہے ہیں اور سرینگر سے کئی قومی ٹیلیوژن چینلز کیلئے رپورٹنگ کی ہے۔ انکے والد ظفر معراج سینئر صحافی اور کشمیر مانیٹر کے مدیر ہیں جنہوں نے2014 میں پی ڈی پی کی ٹکٹ پر حبہ کدل حلقے سے انتخاب لڑا لیکن ناکام رہے۔ شمیم معراج، رئیل کشمیر فٹ بال کلب کے شریک مالک ہیں۔
واضح رہے کہ محبوبہ مفتی، ان تین وزرائے اعلیٰ میں شامل ہیں جنہیں حراست میں رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اب بھی تقریباً 250 سرکردہ سیاسی رہنما نظربند یا پھر حراست میں ہیں۔گزشتہ مہینے یورپی پارلیمان میں جموں و کشمیر کے مسئلے پر تبادلہ خیال ہوا تھا۔ اس کے اراکین نے وہاں پر حالات معمول پر لانے کے لیے مدد کرنے کی بات کی تھی۔ اس کے علاوہ پابندی عائد کرنے پر مذمت کی تھی۔
جو اراکین پارلیمان جموں و کشمیر کا دورہ کر رہے ہیں، ان میں زیادہ تر رہنما دائیں جماعتوں کے ہیں اور یہ پہلا بین الاقوامی گروپ ہے جو جموں و کشمیر کو دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کے منسوخ ہونے کے بعد دورہ کر رہا ہے۔