ETV Bharat / city

کشمیر میں ویب سائٹ کی 'وہائٹ لسٹ' کا قدم غیرقانونی

سینٹر فار انٹرنیٹ اینڈ سوسائٹی میں اظہار رائے سے متعلق قانونی اور تکنیکی تحقیق کے نگران گرشاباد گرور کے مطابق جموں کشمیر میں 6 ماہ کے بعد انٹرنیٹ بحال کیا گیا لیکن حکومت کی جانب سے ویب سائٹس کی 'وہائٹ لسٹ' جاری کرنا قانونی نقطہ نظر سے صحیح نہیں ہے کیونکہ حکومت کو صرف کچھ ویب سائٹس کو بند کرنے کا اختیار ہے۔

کشمیر میں ویب سائٹ کی وائٹ لسٹ کا قدم
کشمیر میں ویب سائٹ کی وائٹ لسٹ کا قدم
author img

By

Published : Feb 6, 2020, 1:02 PM IST

Updated : Feb 29, 2020, 9:40 AM IST

مرکزی سرکار نے جموں کشمیر میں 4 اگست 2019 کو ٹیلی مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ سروسز کو معطل کرنے کا حکم دیا۔ اس کے نتیجے میں لگ بھگ ایک کروڑ لوگ اظہار رائے کی آزادی اور آن لائن نظام سے وابستگی کے اپنے بنیادی حق سے یک لخت محروم ہوگئے۔
سافٹ ویئر فریڈم لاء سینٹر کے انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن ٹریکر کے مطابق جموں کشمیر میں گزشتہ چھ برس کے دوران 180 بارانٹرنیٹ سروس جزوی یا کلی طور معطل کردی گئی ہے۔
یہ حیران کن اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست میں مواصلاتی قدغن نافذ کیا جانا ایک معمول ہے۔ لیکن شاید کشمیریوں نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ ایک جمہوری ملک کی جانب سے سب سے طویل انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کا سامنا کرنے والے ہیں۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ موجودہ دور میں انٹرنیٹ جمہوری عمل میں شرکت کرنے کا سب سے اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ پر قدغن کے نتیجے میں عوام کو سماجی اور معاشی نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں طلباء اہم تعلیمی ذرائع تک رسائی سے محروم ہوجاتے ہیں، اسپتالوں اور دیگر ایمرجنسی شعبوں کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ جاتی ہیں۔
جان ریڈزک کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق انٹرنیٹ کو بند کرنے کے نتیجے میں امن وقانون کی صورتحال کو قابو میں رکھنے میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔ ریڈزک کا کہنا ہے کہ پر امن احتجاج کے لئے تال میل بنانے میں انٹرنیٹ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، جبکہ انٹرنیٹ بند ہوجانے کی وجہ سے پر تشدد مظاہروں کا احتمال پیدا ہوجاتا ہے اور اسے روکنا محال بن جاتا ہے۔

جب ریاست میں دیگر کئی اقدامات کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر قدغن عائد کی گئی جس کے بعد کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر انو رادھا بھسین نے اس کے خلاف سپریم کورٹ کی طرف رجوع کیا ۔
اس طرح سے سپریم کورٹ کو انٹرنیٹ پر قدغن سے متعلق ان ساری باتوں پر غور کرنے اور اس ضمن میں قانون کا جائز ہ لینے کا موقعہ ملا۔ سیول سوسائٹی کو اس خاص صورتحال میں شدید تشویش لاحق ہوگئی۔ حکومت قوائد و ضوابط کی صریحاً خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ، یہاں تک کہ وہ انٹرنیٹ پر قدغن کے احکامات کو مشتہر کرنے اور عوام کو اس فیصلے سے باخبر کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوئی ہے۔

اس معاملے میں سپریم کورٹ نے 10جنوری کے اپنے آخری حکم نامے میں بنیادی آئینی اصولوں کی وضاحت کی ہے اور مستقبل کے لیے اصول بھی مرتب کیے ہیں ۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات سپریم کورٹ نے یہ واضح کردی کہ آئین کی دفعہ 19کے تحت کسی بھی پیشے سے وابستہ لوگوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے اظہار خیال اور اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔
دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ انٹرنیٹ پر قدغن غیر معینہ عرصے تک کے لیے عائد نہیں کی جاسکتی ہے۔ بلکہ ہر ہفتے اس پر انتظامیہ کی جانب سے غور و خوص کیا جانا چاہیے جبکہ اس طرح کی پابندی کا جائزہ عدالت بھی لے سکتی ہے۔ اس طرح سے سپریم کورٹ نے مستقبل میں حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ پر قدغن لگانا ایک مشکل کام بنا دیا ہے۔
تاہم ، جیسا کہ کئی ماہرین نے بھی نوٹ کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اہم شعبوں کی انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کا حکم تو دیا ہے لیکن اس نے عام کشمیری شہریوں کو کوئی راحت نہیں دی ہے۔ جوں ہی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا، جموں کشمیر میں حکومت نے مواصلاتی کمپنیوں کو ٹوجی رفتار کی انٹر نیٹ سروس بحال کرنے کا حکم دیا لیکن صارفین کو صرف 301 ویب سائٹس تک رسائی دی گئی ۔ ان ویب سائٹس پر مشتمل ایک 'وہائٹ لسٹ' جاری کردی گئی ۔ ان قابل رسائی ویب سائٹوں کی فہرست میں اہم شعبوں سے جڑی ویب سائٹس بھی شامل کردی گئیں۔ اس ضمن میں موجودہ قواعد و ضوابط اُن تکنیکی باریکیوں سے میل نہیں کھاتے ہیں، جن کی بنیاد پر جدید دور میں انٹرنیٹ نظام چلتا ہے۔ اس میں کئی تکنیکی باریکیاں ہیں۔
اِن تکنیکی باریکیوں کے ہوتے ہوئے اگر انٹر نیٹ سروس فراہم کرنے والے مخصوص ویب سائٹس تک ہی رسائی دیں گے، تب بھی 'وہائٹ لسٹ ' میں شامل دیگر ویب سائٹوں تک رسائی ناممکن بن جاتی ہے۔اس ضمن میں روہنی لکشانی اور پرتیک واگرے نے ایک حالیہ تجربے کے بعد اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 301ویب سائٹس میں صرف 126ہی کچھ حد تک قابل رسائی ہیں۔

اگرچہ حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کے احکامات کو سپریم کورٹ کی ہدایات کا تسلسل دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیٹ پابندی کے حوالے سے حکومت کے پاس معمولی سا آئینی جواز ہے۔
حکومتی حکم نامے میں انٹرنیٹ پابندی کے لیے سنہ 2017 میں جاری کردہ ٹیلی کام سروس ( پبلک ایمرجنسی یا پبلک سیفٹی ) رولز کا حوالہ دیا گیا ہے۔یہ ضوابط سامراجی دور کے انڈین ٹیلی گراف ایکٹ کے حوالے سے جاری کیے گئے ہیں۔ یہ قوائد و ضوابط حکومت کو مواصلاتی نظام یاانٹرنیٹ سروسز کو معطل کرنے کی اجازت تو دیتے ہیں لیکن یہ حکومت کو اس طرح سے وہائٹ لسٹ مرتب کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں ، جیسا کہ جموں کشمیر میں کیا گیا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی شق 69 اے کے مطابق مرکزی حکومت یا عدالتیں کچھ ویب سائٹس کو بند کرنے کا حکم دے سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ حکومت اور مواصلاتی کمپنیوں کے درمیان معاہدوں کی رو سے بھی سرکار قومی سلامتی کے نام پر چند آن لائن ذرائع یعنی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے احکامات دے سکتی ہے۔ اس لیے حکومت کی جانب سے ویب سائٹس کی وائٹ لسٹ جاری کرنے کے اقدام کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ کیونکہ اسے صرف کچھ ویب سائٹوں کو بند کرنے کا اختیار ہے۔

اب کشمیریوں نے ایک نئی راہ نکالی ہے۔ یعنی اب وہ 'ورچیول پرائیویٹ نیٹ ورک' ( وی پی این ) کے ذریعے حکومتی وائٹ لسٹ کو جھُل دے رہے ہیں اور اس طرح سے تمام ویب سائٹس تک رسائی پاتے ہیں۔ لیکن یہ اطلاعات آنے لگی ہیں کہ سیکورٹی فورسز کشمیریوں کو ان کے فون سے مذکورہ اپلی کیشنز( وی پی این) ہٹانے پر مجبور کررہے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی قانون ہی نہیں ہے ، جو وی پی این استعمال کرنے سے منع کرتا ہویا انٹرنیٹ پابندی کو جھل دینے کے عمل سے روک سکتی ہے۔

کشمیر میں انٹرنیٹ اور مواصلاتی سروسز کوبند ہوئے اب تقریبا سات ماہ گذر چکے ہیں ۔ اس طر ح سے کشمیریوں کو ایک طویل عرصے تک ایک بنیادی حق سے محروم رکھنا غلط قدم ہے ۔ ایک ایسا غلط اقدام جس کا ازالہ مستقبل میں بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مہینوں تک مکمل مواصلاتی قدغن کے بعد حکومت اب محدود اور جزوی طور پر یہ سروسز فراہم کرنے کے لیے کچھ بہتر اقدامات کرنے چاہئے کیوںکہ ہم ایک نئی دہائی میں داخل ہوچکے ہیں اور دُنیا ہمیں دیکھ رہی ہے۔ تاریخ اُن لوگوں کو اچھے طریقے سے یاد نہیں کرے گی جواس وقت قومی سلامتی یا امن و قانون کے نام پر شہری کی آزادی کو چھین رہے ہیں۔

مرکزی سرکار نے جموں کشمیر میں 4 اگست 2019 کو ٹیلی مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ سروسز کو معطل کرنے کا حکم دیا۔ اس کے نتیجے میں لگ بھگ ایک کروڑ لوگ اظہار رائے کی آزادی اور آن لائن نظام سے وابستگی کے اپنے بنیادی حق سے یک لخت محروم ہوگئے۔
سافٹ ویئر فریڈم لاء سینٹر کے انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن ٹریکر کے مطابق جموں کشمیر میں گزشتہ چھ برس کے دوران 180 بارانٹرنیٹ سروس جزوی یا کلی طور معطل کردی گئی ہے۔
یہ حیران کن اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست میں مواصلاتی قدغن نافذ کیا جانا ایک معمول ہے۔ لیکن شاید کشمیریوں نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ ایک جمہوری ملک کی جانب سے سب سے طویل انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کا سامنا کرنے والے ہیں۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ موجودہ دور میں انٹرنیٹ جمہوری عمل میں شرکت کرنے کا سب سے اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ پر قدغن کے نتیجے میں عوام کو سماجی اور معاشی نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں طلباء اہم تعلیمی ذرائع تک رسائی سے محروم ہوجاتے ہیں، اسپتالوں اور دیگر ایمرجنسی شعبوں کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ جاتی ہیں۔
جان ریڈزک کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق انٹرنیٹ کو بند کرنے کے نتیجے میں امن وقانون کی صورتحال کو قابو میں رکھنے میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔ ریڈزک کا کہنا ہے کہ پر امن احتجاج کے لئے تال میل بنانے میں انٹرنیٹ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، جبکہ انٹرنیٹ بند ہوجانے کی وجہ سے پر تشدد مظاہروں کا احتمال پیدا ہوجاتا ہے اور اسے روکنا محال بن جاتا ہے۔

جب ریاست میں دیگر کئی اقدامات کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر قدغن عائد کی گئی جس کے بعد کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر انو رادھا بھسین نے اس کے خلاف سپریم کورٹ کی طرف رجوع کیا ۔
اس طرح سے سپریم کورٹ کو انٹرنیٹ پر قدغن سے متعلق ان ساری باتوں پر غور کرنے اور اس ضمن میں قانون کا جائز ہ لینے کا موقعہ ملا۔ سیول سوسائٹی کو اس خاص صورتحال میں شدید تشویش لاحق ہوگئی۔ حکومت قوائد و ضوابط کی صریحاً خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ، یہاں تک کہ وہ انٹرنیٹ پر قدغن کے احکامات کو مشتہر کرنے اور عوام کو اس فیصلے سے باخبر کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوئی ہے۔

اس معاملے میں سپریم کورٹ نے 10جنوری کے اپنے آخری حکم نامے میں بنیادی آئینی اصولوں کی وضاحت کی ہے اور مستقبل کے لیے اصول بھی مرتب کیے ہیں ۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات سپریم کورٹ نے یہ واضح کردی کہ آئین کی دفعہ 19کے تحت کسی بھی پیشے سے وابستہ لوگوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے اظہار خیال اور اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔
دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ انٹرنیٹ پر قدغن غیر معینہ عرصے تک کے لیے عائد نہیں کی جاسکتی ہے۔ بلکہ ہر ہفتے اس پر انتظامیہ کی جانب سے غور و خوص کیا جانا چاہیے جبکہ اس طرح کی پابندی کا جائزہ عدالت بھی لے سکتی ہے۔ اس طرح سے سپریم کورٹ نے مستقبل میں حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ پر قدغن لگانا ایک مشکل کام بنا دیا ہے۔
تاہم ، جیسا کہ کئی ماہرین نے بھی نوٹ کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اہم شعبوں کی انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کا حکم تو دیا ہے لیکن اس نے عام کشمیری شہریوں کو کوئی راحت نہیں دی ہے۔ جوں ہی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا، جموں کشمیر میں حکومت نے مواصلاتی کمپنیوں کو ٹوجی رفتار کی انٹر نیٹ سروس بحال کرنے کا حکم دیا لیکن صارفین کو صرف 301 ویب سائٹس تک رسائی دی گئی ۔ ان ویب سائٹس پر مشتمل ایک 'وہائٹ لسٹ' جاری کردی گئی ۔ ان قابل رسائی ویب سائٹوں کی فہرست میں اہم شعبوں سے جڑی ویب سائٹس بھی شامل کردی گئیں۔ اس ضمن میں موجودہ قواعد و ضوابط اُن تکنیکی باریکیوں سے میل نہیں کھاتے ہیں، جن کی بنیاد پر جدید دور میں انٹرنیٹ نظام چلتا ہے۔ اس میں کئی تکنیکی باریکیاں ہیں۔
اِن تکنیکی باریکیوں کے ہوتے ہوئے اگر انٹر نیٹ سروس فراہم کرنے والے مخصوص ویب سائٹس تک ہی رسائی دیں گے، تب بھی 'وہائٹ لسٹ ' میں شامل دیگر ویب سائٹوں تک رسائی ناممکن بن جاتی ہے۔اس ضمن میں روہنی لکشانی اور پرتیک واگرے نے ایک حالیہ تجربے کے بعد اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 301ویب سائٹس میں صرف 126ہی کچھ حد تک قابل رسائی ہیں۔

اگرچہ حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کے احکامات کو سپریم کورٹ کی ہدایات کا تسلسل دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انٹرنیٹ پابندی کے حوالے سے حکومت کے پاس معمولی سا آئینی جواز ہے۔
حکومتی حکم نامے میں انٹرنیٹ پابندی کے لیے سنہ 2017 میں جاری کردہ ٹیلی کام سروس ( پبلک ایمرجنسی یا پبلک سیفٹی ) رولز کا حوالہ دیا گیا ہے۔یہ ضوابط سامراجی دور کے انڈین ٹیلی گراف ایکٹ کے حوالے سے جاری کیے گئے ہیں۔ یہ قوائد و ضوابط حکومت کو مواصلاتی نظام یاانٹرنیٹ سروسز کو معطل کرنے کی اجازت تو دیتے ہیں لیکن یہ حکومت کو اس طرح سے وہائٹ لسٹ مرتب کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں ، جیسا کہ جموں کشمیر میں کیا گیا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی شق 69 اے کے مطابق مرکزی حکومت یا عدالتیں کچھ ویب سائٹس کو بند کرنے کا حکم دے سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ حکومت اور مواصلاتی کمپنیوں کے درمیان معاہدوں کی رو سے بھی سرکار قومی سلامتی کے نام پر چند آن لائن ذرائع یعنی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے احکامات دے سکتی ہے۔ اس لیے حکومت کی جانب سے ویب سائٹس کی وائٹ لسٹ جاری کرنے کے اقدام کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ کیونکہ اسے صرف کچھ ویب سائٹوں کو بند کرنے کا اختیار ہے۔

اب کشمیریوں نے ایک نئی راہ نکالی ہے۔ یعنی اب وہ 'ورچیول پرائیویٹ نیٹ ورک' ( وی پی این ) کے ذریعے حکومتی وائٹ لسٹ کو جھُل دے رہے ہیں اور اس طرح سے تمام ویب سائٹس تک رسائی پاتے ہیں۔ لیکن یہ اطلاعات آنے لگی ہیں کہ سیکورٹی فورسز کشمیریوں کو ان کے فون سے مذکورہ اپلی کیشنز( وی پی این) ہٹانے پر مجبور کررہے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی قانون ہی نہیں ہے ، جو وی پی این استعمال کرنے سے منع کرتا ہویا انٹرنیٹ پابندی کو جھل دینے کے عمل سے روک سکتی ہے۔

کشمیر میں انٹرنیٹ اور مواصلاتی سروسز کوبند ہوئے اب تقریبا سات ماہ گذر چکے ہیں ۔ اس طر ح سے کشمیریوں کو ایک طویل عرصے تک ایک بنیادی حق سے محروم رکھنا غلط قدم ہے ۔ ایک ایسا غلط اقدام جس کا ازالہ مستقبل میں بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مہینوں تک مکمل مواصلاتی قدغن کے بعد حکومت اب محدود اور جزوی طور پر یہ سروسز فراہم کرنے کے لیے کچھ بہتر اقدامات کرنے چاہئے کیوںکہ ہم ایک نئی دہائی میں داخل ہوچکے ہیں اور دُنیا ہمیں دیکھ رہی ہے۔ تاریخ اُن لوگوں کو اچھے طریقے سے یاد نہیں کرے گی جواس وقت قومی سلامتی یا امن و قانون کے نام پر شہری کی آزادی کو چھین رہے ہیں۔

Intro:Body:

sdfsdfsd


Conclusion:
Last Updated : Feb 29, 2020, 9:40 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.