ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر میں خواجہ سراؤں کے حقوق پر کام کر رہے ایک سماجی کارکن اعجاز بندھ کا کہنا ہے کہ 'صرف مردم شماری یا دیگر سرکاری دستاویزات میں ایک کالم کا اضافہ کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔'
ان کا کہنا ہے کہ 'سنہ 2014میں مرکزی سطح پر خواجہ سرا کے طور پر باضابطہ تسلیم کرکے سبھی سرکاری و نجی اداروں کو ہدایات جاری کر دی گئیں کہ سبھی دستاویزات خصوصا اندراج فارموں پر خواجہ سرا کا کالم بڑھا دیا جائے۔'
اعجاز بندھ کے مطابق 'خواجہ سراؤں کو ابتدائی ایام میں ہی ہمارے معاشرے سے الگ تھلگ کیا جاتا ہے اور بیشتر اوقات ان کے بنیادی حقوق تک سلب ہو جاتے ہیں۔
اعجاز بندھ کا کہنا ہے کہ' 2017میں مفاد عامہ میں دائر پی آئی ایل کے بعد جموں و کشمیر میں بھی کالم بڑھانے کے احکامات جاری کر دیے۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق سے متعلق ابھی اور بھی کام کرنے باقی ہیں۔'
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران اعجاز بندھ نے کہا کہ 'خواجہ سراؤں کے متعلق معاشرے میں شعور بیداری کی بے حد ضرورت ہے۔'
کشمیر میں خواجہ سراؤں کی تعداد سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اعجاز بندھ نے کہا کہ 'ابھی تک ہمارے معاشرے میں پوری طرح خوجہ سراؤں کے متعلق کوئی منظم کام انجام نہیں دیا گیا ہے اور معاشرے میں ان کے تئیں سرد رویے کے چلتے بعض افراد کھل کر اپنی شناخت ظاہر نہیں کر پاتے ہیں اس لئے ہم بھی 2011کے سرکاری اعداد و شمار پر ہی اکتفا کرتے ہیں جس میں جموں و کشمیر میں خواجہ سراؤں کی تعداد 4137بتائی گئی ہے۔'