ریاست چھتیس گڑھ کے جگدل پور شہر سے تقریبا 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پُسپال پنچایت کے پیڈرپانی پاڑہ علاقے کے لوگ گذشتہ کئی برسوں سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے گاؤں کی ترقی ہوگی۔
آزادی کے 7 دہائیوں کے بعد بھی پاڈیرپانی پارہ گاؤں میں کچھ نہیں بدلا۔ کہا جاتا ہے کہ ترقی کی راہ سڑک سے گزرتی ہے۔ کسی گاؤں کی سڑک اس گاؤں کی ترقی کا پیمانہ ہے، لیکن بستر کے اس گاؤں میں کبھی سڑکیں پہنچی ہی نہیں۔ گاؤں میں لوگوں کے کچے مکانوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے حکمرانوں نے اپنے ترقیاتی نقشہ سے اس گاؤں کو ختم کردیا ہے۔جس کے سبب گاؤں والوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔
گاؤں کے لوگوں کو ابھی بھی حاجت کے لیے باہر جانا پڑتا ہے۔ یہاں 'سوچھ بھارت مشن' کے تحت بیت الخلا کی تعمیر کا کام شروع ہوا لیکن مکمل نہ ہوسکا۔ ادھورے بنے ٹینک میں دوبارہ مٹی بھر چکی ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے ٹوائلٹ کا کام مکمل کرانے کے لیے رقم نہیں دی جا رہی ہے۔ ایسے میں بیت الخلا بنانے والے مزدور رقم مانگ رہے ہیں۔ ٹوائلٹ تو بن نہیں سکا اوپر سے قرض اور چڑھ گیا ہے۔
پاڈیرپانی پارہ گاؤں کے لوگ برسوں سے صاف پانی کی تلاش میں ہیں۔ گاؤں کے لوگ حکومت سے کنویں یا بورویل جیسی سہولیات کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن آج تک یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا۔ ایسی صورتحال میں ان کے پاس دریا کا آلودہ پانی پینے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ گندہ پانی پینے کے سبب بہت سے لوگ بیمار ہوگئے ہیں۔ اسی کے ساتھ ہی کچھ دیہاتی اسہال، ملیریا جیسے سنگین مرض کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
گاؤں کے لوگوں کا سارا دارومدار کھیتی باڑی پر منحصر ہے۔ کچھ نوجوان ملازمت کے لئے بھی رجسٹرڈ تھے، لیکن کبھی کام نہیں ملا۔
یہاں کے دیہاتیوں نے بتایا کہ گاؤں کے کسی فرد کو پچھلے کئی برسوں سے روزگار نہیں مل سکا وہ سب کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں حکومت کی جانب سے بھی یہاں کوئی بندوبست نہیں کیا جارہا ہے۔
آپ کو بتا دیں کہ گاؤں سے 8 کلومیٹر دور تک کوئی آنے جانے کے لیے سڑک نہیں ہے۔ کہیں بھی جانے کا ایک واحد کچا راستہ جنگل ہے۔ پانی لانے سے لے کر ہر ضروری کام کے لیے انہیں جنگل سے گزرنا پڑتا ہے۔گاؤں والے برسوں سے سڑک کا کر رہے ہیں، لیکن اب تک یہ مطالبہ محض ایک مطالبہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔