ETV Bharat / city

'دکنی زبان کا تحفظ وقت کی اہم ضرورت ' - LANGUAGE

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے ہارون خان شیروانی سینٹر برائے دکنی تعلیمات کے زیر اہتمام دو روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

'دکنی زبان کا تحفظ وقت کی اہم ضرورت '
author img

By

Published : Mar 20, 2019, 2:44 AM IST

سیمنار میں دکنی زبان کی تاریخ اور اس کی موجودہ صورتحال پر بحث ہوئی۔

اس سیمینار میں عثمانیہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر محمد سلیمان صدیقی اور کرناٹ اردو اکیڈمی کے سابق صدر پروفیسر نیم نور دفتری زبان سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات نے شرکت کی۔

اس موقع پر پروفیسر سلیمان صدیقی نے دکن میں بہمنی سلطنت کے عہد کو ایک تہذیبی دور سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ بہمنی سلطنت نے بھارت کے اس خطے میں تہذیب کی ایک بنیاد رکھی تھی جو اب تک زندہ اور رواں دواں ہے۔

'دکنی زبان کا تحفظ وقت کی اہم ضرورت '


وہی اس موقع پر کرناٹک اردو اکیڈمی کے سابق صدر نشین میم نون سعید نے دکنی ریاستوں کے ادیب و شعراء کو ایک ساتھ ہوکر دکنی زبان کے تحفظ اور اس کی بحالی کے اقدامات کرنے پر زور دیا۔

انہوں نے بتایا کہ اگر اس زبان کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا تو ممکن ہے کہ ایک تہذیب کا خاتمہ ہوجائے۔

دکنی زبان کی ماہر رانی اندرانی اندراج کیر نے دکنی زبان میں موجود مختلف فنون سے عوام کو روشناس کروانے کو ضروری قرار دیا اور کہا کہ کہ اس زبان کو زندہ رکھنا نہایت ضروری ہے اور یہ کسی ایک فرد یا ادارے کی نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے'۔




سیمنار میں دکنی زبان کی تاریخ اور اس کی موجودہ صورتحال پر بحث ہوئی۔

اس سیمینار میں عثمانیہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر محمد سلیمان صدیقی اور کرناٹ اردو اکیڈمی کے سابق صدر پروفیسر نیم نور دفتری زبان سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات نے شرکت کی۔

اس موقع پر پروفیسر سلیمان صدیقی نے دکن میں بہمنی سلطنت کے عہد کو ایک تہذیبی دور سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ بہمنی سلطنت نے بھارت کے اس خطے میں تہذیب کی ایک بنیاد رکھی تھی جو اب تک زندہ اور رواں دواں ہے۔

'دکنی زبان کا تحفظ وقت کی اہم ضرورت '


وہی اس موقع پر کرناٹک اردو اکیڈمی کے سابق صدر نشین میم نون سعید نے دکنی ریاستوں کے ادیب و شعراء کو ایک ساتھ ہوکر دکنی زبان کے تحفظ اور اس کی بحالی کے اقدامات کرنے پر زور دیا۔

انہوں نے بتایا کہ اگر اس زبان کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا تو ممکن ہے کہ ایک تہذیب کا خاتمہ ہوجائے۔

دکنی زبان کی ماہر رانی اندرانی اندراج کیر نے دکنی زبان میں موجود مختلف فنون سے عوام کو روشناس کروانے کو ضروری قرار دیا اور کہا کہ کہ اس زبان کو زندہ رکھنا نہایت ضروری ہے اور یہ کسی ایک فرد یا ادارے کی نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے'۔




Intro:مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کہ ہارون خان شیروانی سینٹر برائے دکنی تعلیمات کے زیر اہتمام دو روزہ سیمینار بعنوان بہمنی دور حکومت کا فیصلہ تہذیب میں تعاون الفاظ جس میں پروفیسر محمد سلیمان صدیقی سابق وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی اور پروفیسر نیم نور سعید سابق صدر نشین کرناٹک اردو اکیڈمی کے علاوہ دفتری زبان سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات نے شرکت کی اس موقع پر پروفیسر سلیمان صدیقی نے دکن میں بہمنی سلاطین کے عہد کو ایک تہذیبی دار سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ بہمنی سلاطین نے ہندوستان کے اس خطے میں تہذیب کی ایک بنیاد رکھی تھی جو اب تک زندہ اور رواں دواں ہے انہوں نے دکنی مخطوطات کے متعلق کہا کسی زبان میں مصحف ملک کی تاریخ بلکہ کئی ادبی تصانیف موجود ہیں جو مختلف خانقاہوں میں رکھی رکھی ناپید ہورہی ہے لیکن خانخواہ کے ذمہ دار ان مخطوطات کو بحالی کے لیے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہے


Body:سابق صدر نشین کرناٹک اردو اکیڈمی میم نون سعید نے دکنی ریاستوں کے ادیب و شعراء کو ایک جٹ ہوکر دکنی زبان کے تحفظ کیلئے منصوبہ بندی کرتے ہوئے اس کی بحالی کے اقدامات کرنے پر زور دیا انہوں نے بتایا کہ اگر اس زبان کو تحفظ فراہم کیا گیا تو ممکن ھے کہ ایک تہذیب کا خاتمہ ہوجائے


Conclusion:دکنی زبان کی ثقافتی سفیر رانی اندرانی اندراج کیر نے دکنی زبان میں موجود مختلف فنون سے عوام کو روشناس کروانے کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس زبان کو زندہ رکھنے کے لیے یہ کام نہایت ضروری ہے اور یہ کسی ایک فرد یا ادارے کی نہیں بلکہ ہم تمام کی ذمہ داری ہے

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.