سیمنار میں دکنی زبان کی تاریخ اور اس کی موجودہ صورتحال پر بحث ہوئی۔
اس سیمینار میں عثمانیہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر محمد سلیمان صدیقی اور کرناٹ اردو اکیڈمی کے سابق صدر پروفیسر نیم نور دفتری زبان سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات نے شرکت کی۔
اس موقع پر پروفیسر سلیمان صدیقی نے دکن میں بہمنی سلطنت کے عہد کو ایک تہذیبی دور سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ بہمنی سلطنت نے بھارت کے اس خطے میں تہذیب کی ایک بنیاد رکھی تھی جو اب تک زندہ اور رواں دواں ہے۔
وہی اس موقع پر کرناٹک اردو اکیڈمی کے سابق صدر نشین میم نون سعید نے دکنی ریاستوں کے ادیب و شعراء کو ایک ساتھ ہوکر دکنی زبان کے تحفظ اور اس کی بحالی کے اقدامات کرنے پر زور دیا۔
انہوں نے بتایا کہ اگر اس زبان کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا تو ممکن ہے کہ ایک تہذیب کا خاتمہ ہوجائے۔
دکنی زبان کی ماہر رانی اندرانی اندراج کیر نے دکنی زبان میں موجود مختلف فنون سے عوام کو روشناس کروانے کو ضروری قرار دیا اور کہا کہ کہ اس زبان کو زندہ رکھنا نہایت ضروری ہے اور یہ کسی ایک فرد یا ادارے کی نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے'۔