ماہ محرم الحرام اہل تشیع کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس مہینے میں نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں شیعہ برادری غم شہادت حسین مناتی ہے۔ بھارت کے شہر حیدرآباد میں بڑی تعداد میں شیعہ آباد ہیں یہاں دس محرم کو ملک کا سب سے بڑا سالانہ جلوس نکلتا ہے اس کے لئے خاص تیاریاں درکار ہوتی ہیں۔
قطب شاہی دور سے آصف جاہی دور تک اس جلوس کے انتظامات بادشاہ وقت کی جانب سے کئے جاتے تھے۔ جمہوری حکومت میں حکمراں جماعتیں بھی عقیدت مندی کے تحت اس روایت کو جاری رکھا لیکن جاریہ برس اس سلسلے میں خاطر خواہ انتظامات نہ کئے جانے پر شیعہ طبقے میں حکومت کے خلاف ناراضگی پائی جاتی ہے۔
محرم کا مہینہ شروع ہونے میں محض ایک دن رہ گیا ہے لیکن اب تک جلوس کی تیاریوں کا آغاز نہیں کیا گیا۔ نہ ہی کوئی بجٹ جاری کیا گیا اور نہ عاشور خانوں کی تزئین و شیخ پاشی مکمل ہو پائی ہے۔ علاوہ ازیں متعلقہ وزراء نے محرم سے تین روز قبل اس ضمن میں اجلاس طلب کیا جس پر شیعہ نمائندوں کی جانب سے نارضگی ظاہر کئے جانے پر دو وزراء لاجواب ہو کر اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔
شیعہ نمائندہ و بی جے پی مینارٹی مورچہ کے ترجمان فراست علی باقری نے حکومت اور تمام سرکاری شعبوں کی جانب سے شیعہ مسائل کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کے اقتدار کے دوران شیعہ مسائل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت ہم پر توجہ نہیں کر سکتی تو ہمارے اختیارات ہمیں دے دے۔
بی بی کا علاوہ کے نگران علی الدین عارف نے تیاری کے متعلق کہا کہ ہم نے اپنے اخراجات سے عاشور خانے کی تیاری مکمل کر لی حکومت کے نمائندے نے محرم کے بعد بجٹ کی اجرائی کا وعدہ کیا ہے۔
واضح ہو کہ اہم عاشور خانوں میں آپ کو پاشی و رنگ و روغن کا کام جاری ہے جبکہ محرم الحرم کے آغاز میں صرف دو دن رہ گئے ہیں۔