تلنگانہ میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دئے جانے کے باوجود ریاست میں اردو کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاستی حکومت خود کو اقیلت نواز اور وزیر اعلیٰ خود کو محب اردو تو قرار دیتے ہیں لیکن سرکاری دفاتر، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹاپ، اسپتالوں اور سرکاری اسکول اور کالجوں کے بورڈ بھی اردو میں نصب نہیں کئے گئے۔
15 نومبر 2017 کو وزیر اعلیٰ کے سی آر نے اردو زبان کو اس کا جائز مقام عطا کرنے کے مقصد سے ریاست کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیتے ہوئے اسمبلی میں متفقہ طور پر بل منظور کیا اور اس کا گزیٹ بھی شائع ہوا، بل منظور ہو کر 4 سال گزرنے کو ہے لیکن آج تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
تلنگانہ میں آفیشل لینگویج کمیشن میں ایک اردو کے نمائندہ کے علاوہ محکمہ تعلیم میں ایک اسپشل آفیسر فار اردو ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ دونوں عہدے برخاست کردئے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ حیدرآباد کی شناخت نظام شاہی دور کے تاریخی عمارات میں گولکنڈہ قلعہ، چار مینار، سٹی کالج سمیت دیگر عمارتوں کے بورڈ سے بھی اردو ندارد ہے۔
2018 میں وی آر او امتحان اردو زبان میں منعقد کیا گیا تھا لکین کے سی آر حکومت نے اس بھی ختم کرتے ہوئے صرف تیلگو اور انگریزی زبانوں میں منعقد کیا۔ یہ حکومت کی اردو مخالف پالیسی کی ترجمانی کے لئے کافی ہے۔
ظاہر ہے اردو کے نام پر محض سیاست کرنے کے بجائے حکومت کو اسے مضبوط کرنے کے لئے اپنے ہی بنائے ہوئے قانون پر عمل درآمد کرانا چاہئے تبھی اردو کا بھلا ہو سکے گا۔