ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں واقع شاہی مسجد اپنی بے انتہا خوبصورتی کے لیے کافی دور دور تک شہرت رکھتی ہے، قدیم شاہی مسجد فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے، اس کے میناروں اور گنبد کی نزاکت قابل دید ہے، گنبد کے ہر حصے پر خوبصورت نقاشی کی گئی ہے، مسجد کے اندرونی حصہ میں 100 سے زائد مصلین نماز ادا کرسکتے ہیں جبکہ بیرونی حصہ میں پانچ ہزار مصلین کے لیے گنجائش ہے۔
سنہ 1924 میں آصف جاہی سلطنت کے فرمانروا نظام میر عثمان علی خاں بہادر نے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا، جس کی تعمیر سنہ 1933 میں مکمل ہوئی۔
اس وقت کے فرمانروا نظام میر عثمان علی خان بہادر اور انکے مصاحب اسی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے جس کی وجہ سے اس کو شاہی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مسجد کی تزئین کاری اور مرمت کے تعلق سے وقف بورڈ کے چیئرمین محمد سلیم نے گزشتہ ماہ دورہ کیا تھا، اپنے دورے کے دوران چیئرمین نے آٹھ دن میں اس مسجد کی مرمت اور دیگر ضروری کام کو شروع کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن ایک ماہ سے زیادہ وقت گزر جانے کے بعد بھی مسجد کی مرمت کام شروع نہیں ہوسکا۔
مقامی لوگوں نے وقف بورڈ سے اپیل کی ہے کہ عوام میں وقف بورڈ کے تئیں بھروسہ پیدا کرنے کے لیے جلد از جلد مکہ مسجد اور شاہی مسجد کی مرمت اور تزئین کاری کے لیے کیے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
حیدرآباد چونکہ علم و ادب اور اسلامی روایات کا مسکن رہا ہے اس لیے یہاں کی تاریخی مساجد کا شہرہ بھی دور دور تک ہے اسی لیے یہاں کے مسلمان ان مساجد کی تزئین کاری و مرمت کے خواہاں ہیں تاکہ ان تاریخی مساجد کی اہمیت باقی رہے۔