حیدرآباد دکن کے آخری فرمانروا آصف صابع میر عثمان علی خان بہادر کی 55 ویں برسی کے موقع پر مسجد جودی کنگ کوٹھی میں فاتحہ خوانی و گل عقیدت پیش کیا گیا۔ فاتحہ خوانی میں نواب حیدر علی، نواب دلشاد جاہ کے علاوہ دیگر نے شرکت کی۔
نواب میر عثمان علی خان بہادر 6 اپریل 1886 کو حیدرآباد کے پرانے شہر میں واقع پرانی حویلی میں پیدا ہوئے۔ نظام میر عثمان علی خان بہادر 25 سال کی عمر میں تخت نشین ہوئے اور ان دور حکومت میں ریاست حیدرآباد میں کئی ترقیاتی کام کئے گئے۔ میر عثمان علی خان بہادر نے اپنے دور حکمرانی میں جامعہ عثمانیہ، مشہور عثمانیہ اسپتال، صدر شفا خانہ یونانی، نظامس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس، سٹی کلج، عالیہ اسکول، عثمان ساگر، حمایت ساگر ہائیکورٹ، اسمبلی ہال، باغ عامہ، آصفیہ لائبریری، نظام کالج، نظام شوگر فیکٹری وغیرہ کی تعمیر کروائی۔ حیدرآباد دکن ایک ایسی ریاست تھی جس کا خود کا عوامی نظام ٹرانسپورٹ، محکمہ ڈاک، محکمہ ریلویز تھا۔ ان کے دورمیں علما، مشائخ، مساجد، مدارس اور ہر مذہب کی عبادت گاہوں کےلیے معقول امداد دی جاتی۔ انہوں نے جامعہ نظامیہ اور دارالعلوم دیوبند کو بھاری عطیہ دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اسدالدین اویسی نے مکہ مسجد کے حوض کا افتتاح کیا
نظام حیدرآباد کا شمار نہایت ہی دوراندیش حکمرانوں میں ہوتا ہے جبکہ انہیں جدید حیدرآباد کے معمار کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ حیدرآباد کی بے مثال ترقی کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے جنہوں نے رعایا کو اپنی دونوں آنکھوں سے تعبیرکیا تھا اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ہر شعبہ حیات میں نمایاں خدمات انجام دیں۔وہ نظام حیدرآباد کے نام سے مشہور تھے۔
میر عثمان علی خان بہادر کی حکومت 17 ستمبر 1948ء کو ہند فوج کے آپریشن پولو تک قائم رہی اور پولیس ایکشن کے بعد حیدرآباد ریاست کو انڈین یونین میں ضم کر دیا گیا۔موجودہ کرناٹک اور مہاراشٹر کے کئی علاقے حیدرآباد ریاست کا حصہ تھے۔ 15 ذلقیدہ 1967 کو کنگ کوٹھی میں میر عثمان علی خان بہادر کا انتقال ہوا تھا جبکہ ان کی مسجد جودی میں والدہ کی قبر کے قریب تدفین عمل میں لائی گئی۔