حیدرآباد کے آخری حکمراں نواب میر عثمان علی خان کی 53 ویں برسی کے موقع پر وومینس کالج حیدرآباد میں دو روزہ دکنی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
اس موقع پر قومی و بین الاقوامی اردو داں شخصیات نے شرکت کی اور نظام سابع کی تعلیم و تدریس کے فروغ کے لیے کی گئی نمایاں خدمات پر روشنی ڈالی۔
اس پروگرام میں مقررین نے آصفجاہ سابع کی جانب سے تعلیمی اداروں میں اردو زبان کے فروغ کی ستائش کی اور کہا کہ نواب میر عثمان علی خان نے جدید علوم کو اردو میں رائج کروایا۔ اور اس کے لیے چوٹی کے اردو داں حضرات کی خدمات حاصل کیں۔
اس موقع پر معروف اردو نقاد ڈاکٹر تقی عابدی نے نئی نسل کو اردو سکھانے پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ نئی نسل تک اردو کو پہنچانے کے لیے اس کو ٹکنالوجی سے مربوط کیا جانا اشد ضروری ہے۔
ڈاکٹر راج شری مورے نے دکنی اور ہندی کے مابین رابطے کے متعلق تفصیل بتائی۔
نظام ایک مؤثر منتظم اور ایک رعایا پرور بادشاہ کے طور پر جانے جاتے تھے. انہیں "نظام سرکار" اور "حضور نظام" جیسے القابات سے نوازا جاتا تھا۔
ان کے دور میں انجمن ترقی اردو نے بے حد ترقی کی اور بے شمار کتب شائع ہوئیں۔ علما، مشائخ ، مساجد و مدارس اور ہر مذہب کے عبادت خانوں کو معقول امداد ملتی تھی۔
ان کے عہد میں شہر حیدر آباد کی ازسرنو تعمیر ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت نے ریاست حیدر آباد کے خلاف پولیس ایکشن کرکے اُسے بھارت میں ضم کیا۔
عثمانیہ جنرل ہسپتال، عثمان ساگر، ضلع اور شہر عثمان آباد، عثمانیہ یونیورسٹی، عثمانیہ بسکٹ یہ تمام چیزیں ان ہی کے نام سے منسوب ہیں۔