ریاست ہریانہ کے گروگرام میں مکیش کمار نامی نوجوان بے روزگاری اور مالی بحران سے پریشان ہوکر خودکشی کرنے پر مجبور ہوگیا۔
واضح رہے کہ ملک میں کورونا وائرس کے پیش نظر دوسرے مرحلے کا لاک ڈاؤن جاری ہے، لاک ڈاون میں مزید توسیع کے بعد مالی بحران شروع ہوگیا ہے خاص کر غریب عوام کے لیے دو وقت کے کھانے کا انتظام کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
دراصل بہار کے ضلع بانکا سے تعلو رکھنے والا مکیش کمار بطور پینٹر کام کرتا تھا، گذشتہ 10 برسوں سے گروگرام میں رہ رہا تھا، اس وقت وہ اپنی بیوی اور چار بچوں کے ساتھ سرسوتی کنج کی کچی آبادی میں رہ رہے تھے۔
مکیش گزشتہ 5 ماہ سے بے روزگار تھا جس کے سبب وہ بہت زیادہ ذہنی دباو میں رہتا تھا لیکن لاک ڈاؤن میں کام نہ ہونے کی وجہ سے اس پر کافی زیادہ مقروض ہوگیا تھا۔
مکیش کو امید تھی کہ لاک ڈاؤن 14 اپریل کے بعد کھل جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جس نے اس کی تشویش میں مزید اضافہ کردیا۔ جب بیوی قریب کے کچی آبادی میں والدین سے ملنے گئی تھی تو اسی وقت مکیش نے خود کشی کرلی۔
مکیش کی اہلیہ پونم نے بتایا کہ گھر کے اخراجات کی رقم ختم ہونے کے بعد مکیش نے اپن 12000 روپے کی موبائل مجبوری میں صرف ڈاھائی ہزار میں بیچ کر گھر میں کھانے پینے کی ضروری اشیاء لایا تھا لیکن دو دن بعد دوبارہ کھانے کا مسئلہ پیدا ہوگیا جس کے بعد بھی جب اسے راشن اور اخراجات کی کوئی فراہمی نظر نہیں آئی تو اس نے گھر میں ہی خودکشی کرلی۔
مکیش کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران انہیں کھانے پینے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نا کھانا وقت پر پہنچتا ہے اور انتظامیہ کی طرف سے کوئی سامان دستیاب نہیں ہوتا ہے۔ پڑوسی یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ کورونا سے مرنے سے پہلے شاید بھوک سے ہی مرجائیں گے۔
نوجوان کی خودکشی کے بعد گروگرام پولیس کے اے سی پی کرائم پریتپال سنگھ کا کہنا ہے کہ نوجوان کی موت کی وجہ فاقہ کشی نہیں تھی۔ بلکہ نوجوان ذہنی طور پر پریشان تھا۔
حکومت نے دعوی کیا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران کسی بھی غریب کو بھوکا نہیں سونے دیا جائے گا۔ اس کے لیے حکومت نے غریب مزدوروں کے کھاتے میں رقم بھیجنے اور گھر گھر راشن دینے کا دعوی کیا لیکن مکیش کی خودکشی نے حکومت کے ان دعوؤں پر سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔