شہر گیا کے وارڈ نمبر 27 کی کونسلر آشا دیوی صبح صبح محلے کی صفائی، پھر کپڑوں کی دھلائی، ایک جوابدہی معاشرے کی تو دوسری ذمہ داری گھر کی دیکھ بھال کی، دونوں کو ہی وہ بخوبی انجام دیتی ہیں، آشا دیوی وارڈ کونسلر ہیں اور کونسلر بننے کے باوجود معاش کے لیے انہوں نے اپنے خاندانی کام کو نہیں چھوڑا ہے۔
یہ کہنا بجا نہیں ہوگا کہ آشادیوی اس فہرست میں شامل ہیں جو معاشرے میں تبدیلی کی مثال بنتی ہیں۔ آشا دیوی کہتی ہیں کہ لوگوں نے اس عہدے پر فائز کیا ہے تو ذمہ داریوں کو انجام دینا بھی میرا فرض ہے، لیکن جس کام کو وہ برسوں سے کرتی آئی ہیں اسے بھی وہ نہیں چھوڑ سکتی ہیں، کیونکہ گھر اور بچوں کی پرورش، ان کی تعلیم و تربیت اسی پیشہ سے کیا گیا ہے۔ آشادیوی کو یہی بات اور عمل خاص بناتا ہے۔ غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی آشادیوی دسویں پاس ہیں۔ کپڑے دھونے اور آئرن کرنے کی ایک دکان مسلم اکثریت والی محلہ علی گنج میں برسوں سے ہے۔
آشادیوی اور ان کا بیٹا دھرمندر یہیں رہ کر کام کیا کرتے تھے چار برس قبل 2017 میں میونسپل کارپوریشن گیا کا انتخاب ہو رہا تھا۔ چونکہ وارڈ نمبر 27 علی گنج 'ریزرو' وارڈ ہے۔ اس لیے درج فہرست ذات کے بڑے اور سیاست کے ماہرین اس وارڈ سے قسمت آزما رہے تھے، اسی دوران یہاں کے مسلمان کشمکش میں تھے کہ وہ اپنے وارڈ کا کونسلر کسے منتخب کریں تاکہ آسانی سے انکے وارڈ کے کام ہوں اور یہاں کے حالات بھی سدھریں۔ یہاں کے باشندوں نے محلہ میں کپڑے اور آئرن کرنے والی خاتون آشادیوی کو اپنا امیدوار بنایا۔ اس بات کا اعتراف آشادیوی کے بیٹا دھرمیندر کمار کرتے ہوئے کہتے ہیں انکی والدہ کو مسلم معاشرہ نے اپنے خرچ پر امیدوار بنا کر جیت سے ہمکنار کیا ہے۔
دراصل آشادیوی جس وارڈ نمبر 27 کی وارڈ کونسلر ہیں وہاں مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ آشادیوی کے بیٹا دھرمندر کمار نے بتایا کہ ان کی والدہ مسلمانوں کے اصرار پر ہی کھڑی ہوئی تھی۔ مسلمانوں نے نہ صرف ووٹ دیا بلکہ مالی طور پر بھی مدد کی ہے۔ آشادیوی کو اکثریتی طبقہ کے بوتھ پر محض بیس ووٹ ہی ملے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: گیا: ہاسٹل میں رنگ وروغن کے نام پر کروڑوں روپے کا غبن
دھرمندر کے مطابق ایک طرف جہاں ملک میں فرقہ پرست افراد اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لئے سماج کو بد نام کرنے کی سازش میں رہتے ہیں وہیں آج بھی معاشرے کے لوگوں کے عمل سے ہندو مسلم بھائی چارے اور مشترکہ تہذیب کو پیش کرکے بہترین مثال پیش کی جاتی ہے۔ علی گنج محلہ گنگا جمنی تہذیب کی بہترین مثال ہے۔
علی گنج کے باشندہ افروز عالم کہتے ہیں کہ یہ ریزرو وارڈ ہے تو ایسی صورت میں سبھی کی کوشش تھی کہ وہ انہیں ووٹ دیں جسے وہ برسوں سے جانتے ہوں جس کا اخلاق و کردار معاشرے میں آپ سے بھائی چارہ کے لیے ہو. وارڈ کونسلر کے ماتحت کام محدود ہیں تاہم وارڈ کونسلر ایسا ہوکہ خوشی وغم کی گھڑی میں ساتھ کھڑا ہو۔ حالانکہ یہ وارڈ آج بھی میونسپل کارپوریشن کے ماتحت جو منصوبے ہوتے ہیں ان میں زیادہ تر منصوبہ سے محروم ہے تاہم باشندوں کو خوشی اسکی ہے آشادیوی آج بھی اپنے خاندانی کام کے ذریعے گھر گھر تک پہنچتی ہیں، وارڈ کونسلر بننے کے بعد بھی اپنے خاندانی کام سے جڑی ہیں۔ یہ کم ہی دیکھا جاتا ہے کہ کسی عہدے پر پہنچنے کے بعد لوگ اپنے کام اور پہچان کو برقرار رکھتے ہیں۔