ETV Bharat / city

IMDAD IMAM ASAR: نواب سرسید امداد امام اثر کی قبر ایک ہندو کے مکان میں واقع - کانگریس پارٹی کے رہنمااودھیش کے مکان میں سید امداد امام کی قبر

اردو کے نامور ناقد، شاعر، محقق اور مصنف امداد امام اثر کی قبر موجودہ وقت میں ایک غیر مسلم کے گھر کے احاطے میں واقع ہے. یہ گھر کانگریس پارٹی کے رہنما وسابق ریاستی وزیر اودھیش سنگھ کا ہے۔ اودھیش سنگھ امداد اثر اور ان کے رشتے داروں کی قبروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ہر برس فاتحہ خوانی ہوتی ہے۔ Revealed Regarding the Tomb of Nawab Sir Syed Imdad Imam Asar

سرسید امداد امام اثر کی قبر
سرسید امداد امام اثر کی قبر
author img

By

Published : Mar 29, 2022, 1:23 PM IST

ریاست بہار کے ضلع گیا کے عام مسلمانوں کو اس کا علم نہیں ہے کہ اردو ادب کی معروف شخصیت "شمس العلماء سید امداد امام اثر" کہاں سپرد خاک ہیں؟ ان کی قبر کہاں اور کس حال میں ہے؟ کچھ لوگوں کو صرف اتنی جانکاری ہے کہ امداد امام اثر کی قبر گیا کے مانپور میں واقع ہے۔ Revealed Regarding the Tomb of Nawab Sir Syed Imdad Imam Asar۔ ای ٹی وی بھارت اردو کی ٹیم نے امداد امام اثر کی قبر کے حوالے سے جانکاری حاصل کرنے کے لیے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ امداد امام اثر اور ان کے رشتے داروں کی قبریں کانگریس کے رہنما وسابق ریاستی وزیر اودھیش سنگھ کے مکان کے احاطے کے پچھلے حصے میں واقع ہے اور وہ قبریں آج تک صحیح سلامت ہیں، یہاں تک کہ امداد امام اثر کی قبر پر لگا کتبہ آج بھی صحیح سلامت ہے۔ برسوں سے امداد امام اثر اور ان کے رشتے داروں کی قبر کی دیکھ بھال اودھیش سنگھ اور ان کے کنبہ کے افراد کرتے ہیں۔

سرسید امداد امام اثر کی قبر

اودھیش سنگھ اور ان کے گھر کے لوگوں نے گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط کرنے کی بہترین مثال پیش کی ہے. اودھیش سنگھ کانگریس کے سینئر رہنما ہیں اور پانچ مرتبہ وہ رکن اسمبلی رہے ہیں، وہ آرجے ڈی اور مہاگٹھ بندھن کی سرکار میں مختلف وزارتوں کی ذمہ داری ادا کرچکے ہیں۔ دراصل جس جگہ پر امداد اثر کی قبر ہے اس کے اگلے حصے میں ایک بڑی حویلی ہے، جس میں اودھیش سنگھ رہتے ہیں یہ حویلی طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ حویلی امداد اثر کی تھی آزادی کے کافی برسوں بعد اس کو امداد امام اثر کے خاندان کے لوگوں نے فروخت کردیا تھا۔


ای ٹی وی بھارت کی ٹیم نے پہنچ کر جائزہ لیا تو پایا کہ قریب ایک کٹھے میں قبرستان کی جگہ ہے جس کے چاروں طرف سے دس فٹ سے زیادہ اونچی دیوار ہے. احاطے میں پانچ پختہ قبریں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں اودھیش سنگھ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد نے سنہ 1960 کے قریب یہ حویلی خریدی تھی، ان کے والد نے انہیں وصیت کی تھی کہ نواب صاحب اور ان کے گھر کے لوگوں کی قبروں کو اپنے آباء و اجداد" پروج" کی وراثت سمجھ کر سنبھالنا جو وہ آج تک کرتے آرہے ہیں۔

تہواروں کے موقع پر اودھیش سنگھ اور ان کی آل اولاد چادر پوشی کرتے ہیں، یوم وفات کے موقع پر فاتحہ خوانی ان ہی کی موجودگی میں ہوتی ہے، ہر برس رنگ و روغن کا کام ہوتا ہے، انہوں نے قبروں کی حفاظت سے متعلق سوال پر کہا کہ ان کی دعاؤں کی وجہ سے وہ اتنے بڑے مقام پر پہنچے اور ان کی آستھا ان سے جڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی تو سیکولر ازم اور بھارت کی خوبصورتی ہے۔ سابق آئی جی معصوم عزیز کاظمی کہتے ہیں کہ بڑی بات یہ کہ آج کے ناخوشگوار اور مذہبی نفرت کے دور میں بھی کوئی اپنے گھر کے احاطے کے حصے میں قبروں کو آباد رکھے ہے تو واقعی مثالی کردار ہے اور اگر کوئی سیاسی رہنما کا کردار اس طرح کا ہو تو یہ اور قابل ستائش کام ہے۔


مختصر تعارف
اردو ادب میں جن شخصیات کو تنقید کے سلسلے کا آغاز کرنے کا سہرا جاتا ہے ان میں سے ایک نام شمس العلماء نواب سید امداد امام اثر کا بھی ہے، ناقد ہونے کے ساتھ وہ بلند پایہ کے شاعر تھے، جن کی کئی تخلیق میں ایک معروف تخلیق " کاشف الحقائق" بھی ہے۔ امداد امام اثر 17 اگست 1849 کو بہار کے دارالحکومت پٹنہ ضلع کے کراپر سرائے کے ایک ممتاز علمی گھرانے میں پیدا ہوئے، بتایا جاتا ہے ان کے آبا واجداد میں سے ایک شہنشاہ اورنگ زیب کے استاد رہے تھے۔ ان کے والد شمس العلماء سید وحید الدین بہادر چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے، خود امام اثر تعلیم مکمل کرنے کے بعد وکیل بنے اور بعد میں وہ پٹنہ کالج میں ہسٹری اور عربی کے پروفیسر ہوئے۔


اثر مشرقی اور مغربی ادب اور ادبی ثقافتوں کے علمبردار تھے، ان کی علمی اور سیاسی خدمات کے اعتراف میں انہیں شمس العلماء کا خطاب ملا اور برطانوی حکومت سے نواب کا خطاب ملا، اثر نے دو شادیاں کیں اور ان کے بیٹوں میں سے ایک سر علی امام اور سر امام احسن نے دوسروں سے زیادہ شہرت حاصل کی. اثر اپنی کتاب کاشف الحقائق سے مزید شہرت حاصل کی تھی۔ اثر کا انتقال گیارہ مارچ 1933 کو ہوا تھا اور ان کی قبر گیا میں واقع ہے۔

ریاست بہار کے ضلع گیا کے عام مسلمانوں کو اس کا علم نہیں ہے کہ اردو ادب کی معروف شخصیت "شمس العلماء سید امداد امام اثر" کہاں سپرد خاک ہیں؟ ان کی قبر کہاں اور کس حال میں ہے؟ کچھ لوگوں کو صرف اتنی جانکاری ہے کہ امداد امام اثر کی قبر گیا کے مانپور میں واقع ہے۔ Revealed Regarding the Tomb of Nawab Sir Syed Imdad Imam Asar۔ ای ٹی وی بھارت اردو کی ٹیم نے امداد امام اثر کی قبر کے حوالے سے جانکاری حاصل کرنے کے لیے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ امداد امام اثر اور ان کے رشتے داروں کی قبریں کانگریس کے رہنما وسابق ریاستی وزیر اودھیش سنگھ کے مکان کے احاطے کے پچھلے حصے میں واقع ہے اور وہ قبریں آج تک صحیح سلامت ہیں، یہاں تک کہ امداد امام اثر کی قبر پر لگا کتبہ آج بھی صحیح سلامت ہے۔ برسوں سے امداد امام اثر اور ان کے رشتے داروں کی قبر کی دیکھ بھال اودھیش سنگھ اور ان کے کنبہ کے افراد کرتے ہیں۔

سرسید امداد امام اثر کی قبر

اودھیش سنگھ اور ان کے گھر کے لوگوں نے گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط کرنے کی بہترین مثال پیش کی ہے. اودھیش سنگھ کانگریس کے سینئر رہنما ہیں اور پانچ مرتبہ وہ رکن اسمبلی رہے ہیں، وہ آرجے ڈی اور مہاگٹھ بندھن کی سرکار میں مختلف وزارتوں کی ذمہ داری ادا کرچکے ہیں۔ دراصل جس جگہ پر امداد اثر کی قبر ہے اس کے اگلے حصے میں ایک بڑی حویلی ہے، جس میں اودھیش سنگھ رہتے ہیں یہ حویلی طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ حویلی امداد اثر کی تھی آزادی کے کافی برسوں بعد اس کو امداد امام اثر کے خاندان کے لوگوں نے فروخت کردیا تھا۔


ای ٹی وی بھارت کی ٹیم نے پہنچ کر جائزہ لیا تو پایا کہ قریب ایک کٹھے میں قبرستان کی جگہ ہے جس کے چاروں طرف سے دس فٹ سے زیادہ اونچی دیوار ہے. احاطے میں پانچ پختہ قبریں موجود ہیں۔ اس سلسلے میں اودھیش سنگھ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد نے سنہ 1960 کے قریب یہ حویلی خریدی تھی، ان کے والد نے انہیں وصیت کی تھی کہ نواب صاحب اور ان کے گھر کے لوگوں کی قبروں کو اپنے آباء و اجداد" پروج" کی وراثت سمجھ کر سنبھالنا جو وہ آج تک کرتے آرہے ہیں۔

تہواروں کے موقع پر اودھیش سنگھ اور ان کی آل اولاد چادر پوشی کرتے ہیں، یوم وفات کے موقع پر فاتحہ خوانی ان ہی کی موجودگی میں ہوتی ہے، ہر برس رنگ و روغن کا کام ہوتا ہے، انہوں نے قبروں کی حفاظت سے متعلق سوال پر کہا کہ ان کی دعاؤں کی وجہ سے وہ اتنے بڑے مقام پر پہنچے اور ان کی آستھا ان سے جڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی تو سیکولر ازم اور بھارت کی خوبصورتی ہے۔ سابق آئی جی معصوم عزیز کاظمی کہتے ہیں کہ بڑی بات یہ کہ آج کے ناخوشگوار اور مذہبی نفرت کے دور میں بھی کوئی اپنے گھر کے احاطے کے حصے میں قبروں کو آباد رکھے ہے تو واقعی مثالی کردار ہے اور اگر کوئی سیاسی رہنما کا کردار اس طرح کا ہو تو یہ اور قابل ستائش کام ہے۔


مختصر تعارف
اردو ادب میں جن شخصیات کو تنقید کے سلسلے کا آغاز کرنے کا سہرا جاتا ہے ان میں سے ایک نام شمس العلماء نواب سید امداد امام اثر کا بھی ہے، ناقد ہونے کے ساتھ وہ بلند پایہ کے شاعر تھے، جن کی کئی تخلیق میں ایک معروف تخلیق " کاشف الحقائق" بھی ہے۔ امداد امام اثر 17 اگست 1849 کو بہار کے دارالحکومت پٹنہ ضلع کے کراپر سرائے کے ایک ممتاز علمی گھرانے میں پیدا ہوئے، بتایا جاتا ہے ان کے آبا واجداد میں سے ایک شہنشاہ اورنگ زیب کے استاد رہے تھے۔ ان کے والد شمس العلماء سید وحید الدین بہادر چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے، خود امام اثر تعلیم مکمل کرنے کے بعد وکیل بنے اور بعد میں وہ پٹنہ کالج میں ہسٹری اور عربی کے پروفیسر ہوئے۔


اثر مشرقی اور مغربی ادب اور ادبی ثقافتوں کے علمبردار تھے، ان کی علمی اور سیاسی خدمات کے اعتراف میں انہیں شمس العلماء کا خطاب ملا اور برطانوی حکومت سے نواب کا خطاب ملا، اثر نے دو شادیاں کیں اور ان کے بیٹوں میں سے ایک سر علی امام اور سر امام احسن نے دوسروں سے زیادہ شہرت حاصل کی. اثر اپنی کتاب کاشف الحقائق سے مزید شہرت حاصل کی تھی۔ اثر کا انتقال گیارہ مارچ 1933 کو ہوا تھا اور ان کی قبر گیا میں واقع ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.