ریاست بہار کے ضلع گیا میں گزشتہ برس کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں نافذ لاک ڈاون میں جس طرح مسلم نوجوانوں نے اپنی خدمات انجام دی تھیں اس سے کہیں زیادہ اس برس خدمات انجام دی ہیں۔
اس مرتبہ اس لیے بھی نوجوانوں کی خدمت اہم ہے کیونکہ کورونا نے اس مرتبہ جو کہرام مچایا ہے، اس سے اپنے پرائے سبھی ڈرے سہمے تھے، گیا میں کئی مقامات پر دیکھنے کو ملا کہ کورونا سے مرنے والوں کی نعش کو گھر والے بھی ہاتھ لگانے کو تیار نہیں تھے، ایسی صورتحال میں مسلم نوجوانوں نے نعش کی آخری رسومات بھی ادا کی۔
شہر گیا کے مسلم نوجوانوں کی مختلف ٹیم نے خدمات انجام دی ہیں، اس کی شروعات فعال نوجوان فیاض خان نے اس وقت کیا جب آکسیجن کی بھاری قلت تھی، فیاض خان نے مریضوں کے گھر تک آکسیجن پہنچانا، ان کے لیے دوائی پہنچائی، جن کے یہاں کھانے پینے کے سامان کی ضرورت تھی ان کے یہاں اشیائے خوردنی پہنچایا، دیکھتے ہی دیکھتے نوجوانوں کی کئی ٹیمیں خدمات انجام دینے لگیں جن میں ایک بڑی ٹیم وارڈ کونسلر نیر احمد کی ہے۔
نیر احمد اور ان کی ٹیم نے خوب محنت کی، جس وقت کورونا کا قہر سب سے زیادہ تھا اس وقت لوگ ایک دوسرے کے قریب جانے سے بھی گھبراتے تھے۔ اس وقت مسلم نوجوانوں کی ٹیم نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر لوگوں کی خدمت کی۔ رمضان میں روزے رکھ کر نوجوان خدمت خلق میں مصروف رہے۔ نوجوانوں کے اس کام کی خوب تعریف کی جارہی ہے۔
شہر کے مشہور سماجی کارکن لال جی پرساد کہتے ہیں کہ یوں تو کورونا کے وقت ہر کسی کے دل میں خدمت کا جذبہ رہا تاہم شہر کے نوجوانوں نے جو مثال پیش کی ہے اس سے آپسی اتحاد، محبت اور بھائی چارہ بھی بڑھے گا۔
فیاض خان اور نیر احمد کے مثالی کاموں کو دیکھ کر شہر میں دیگر نوجوان بھی آگے بڑھے، ان نوجوانوں نے اپنے پیسے سے آکسیجن، دوائی، کھانے پینے کے سامان، ایمبولینس کرایہ پر دستیاب کرایا ہے۔
لال جی پرساد کا ماننا ہے کہ ان سبھی افراد جنہوں نے کورونا کے وقت بے لوث خدمات انجام دی ہیں، انہیں سرکاری اعزاز بخشا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے نوجوانوں کے حوصلے پست نہیں ہوں بلکہ انکے حوصلے بلند ہوں۔
مولانا شبیر اشرفی کہتے ہیں کہ وہ بھی بیمار پڑے، مسلم نوجوانوں کا خدمت کرنے کا جذبہ ایسا کہ وہ گاؤں تک ضرورت کے سامان پہنچانے کے لیے پہنچ گئے۔ انہیں آکسیجن کی ضرورت پڑی تو ان کے گھر تک مفت آکسیجن پہنچایا گیا۔
دراصل نوجوانوں کی خدمت کا ہی نتیجہ ہے کہ خستہ حال ہیلتھ سسٹم کے باوجود بہار اور گیا میں حالات کنٹرول ہونے میں حکومت کو آسانی ہوئی۔
مولانا شبیر اشرفی نے نمائندہ کو فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دراصل وہ گیا ہیڈ کوارٹر سے قریب ستر کلو میٹر دور شمش آباد گاوں میں تھے، طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے وہ خبروں سے بے خبر تھے۔ اسی دوران انہوں نے ای ٹی وی بھارت اردو کی رپورٹ ایک گروپ پر دیکھا جس کے بعد انہوں نے فیاض خان سے رابطہ کیا اور جہاں جہاں آکسیجن کی ضرورت تھی ان کے تعاون سے دستیاب کرایا۔ انہوں نے کہا کہ ان نوجوانوں نے بلاتفریق سبھی کو مدد پہنچائی ہے جسکی جتنی تعریف کی جائے اتنی کم ہے۔