حکومتیں جب عوام کی فریاد اور مسائل کو سننے سے انکار کردیتی ہیں تو پھر لوگوں کو اپنے مسائل کا حل خود ہی تلاش کرنا پڑتا ہے۔
بہار کے ضلع گیا کے ایک گاؤں کے باشندوں نے حکومت کی بے توجہی سے مایوس ہو کر اپنی پریشانیوں کا حل خود ہی نکال لیا ہے۔ دراصل گیا کے وزیر گنج حلقہ کے امیٹھی پنچایت کی ایک ندی پر پل نہیں تھا۔ ندی کا راستہ کئی گاؤں کو جوڑتا ہے۔ مقامی لوگوں نے کئی بار حکومت سے اس کا مطالبہ کیا لیکن اس کے باوجود حکومت نے مقامی باشندوں کے اس مطالبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
حکومت کی مدد نہیں ملنے سے نالاں مقامی باشندوں نے آپس میں چندہ کرکے خود ہی 81 فٹ لمبے اور آٹھ فٹ چوڑے پل کی تعمیر کا کام کیا ہے۔
واضح ہو کہ امیٹھی ندی پر پل نہیں ہونے کی وجہ سے کئی گاؤں کے لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ وزیر گنج بلاک کے ببھنی، بگھول اور چھببے گنج گاؤں کے باشندوں کو جکوہری ندی پار کر کے وزیرگنج اور گیا جانا پڑتا تھا۔
برسات کے دنوں میں ندی میں آبی سطح میں اضافہ ہو جاتا تھا، جس سے لوگوں کو کافی پریشانی ہوتی تھی۔ مقامی باشندوں کے مطابق کئی مرتبہ ندی پار کرنے کے دوران لوگ ڈوب بھی گئے ہیں۔ کئی مرتبہ اس کے متعلق انتظامیہ و حکومت کے نمائندوں کے دفتروں کاچکر کاٹ چکے ہیں لیکن کہیں سے انہیں کوئی مدد نہیں ملی۔
گاؤں کے باشندہ نظام الدین خان نے بتایا کہ علاقے کے باشندوں کو کافی پریشانی ہوتی تھی۔ خاص طور سے بیمار اور حاملہ خاتون کو ہسپتال پہنچانے میں سب سے زیادہ پریشانی ہوتی تھی۔ پل تعمیر کرنے کے لئے کہیں سے مدد نہیں ملی۔
ایک دوسرے باشندہ سجاد احمد نے بتایا کہ ندی پر پل نہیں ہونے سے شام ہونے سے قبل ہی گاؤں واپس لوٹ جانا پڑتا ہے۔ جب برسات میں ندی میں پانی بھرا ہوتا ہے تو گھر میں رہ کر ہی پڑھائی کرنی پڑتی ہے۔
مکھیا لکشمی کانت نے کہا کہ متعدد بار انتظامیہ کے اعلی حکام کے دفتروں کاچکر کاٹا، مسئلے کا حل نہیں ہوا تو مقامی لوگوں نے میٹنگ کر کے خود ہی بنانے کا فیصلہ لیا۔ اس کام میں سابق پیکس صدر ادتیہ کمار نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور انہی کی کاوشوں سے آج پل تعمیر ہوسکا ہے۔ اس پل کی تعیمر سے لوگوں کو کافی آسانی ہوگی۔
سابق پیکس صدر آدتیہ کمار نے بتایا کہ مقامی باشندوں کی پریشانیوں کو دیکھ کر انہوں نے پل تعمیر کرنے کا فیصلہ لیا۔ ابھی تک تین لاکھ سے زیادہ رقم خرچ کی جا چکی ہے، ابھی کچھ کام باقی ہے جس میں اور خرچ ہوسکتا ہے۔
اسکول کی ٹیچر کملا دیوی نے بتایا کہ جب وہ اسکول برسات میں آتی تھیں تو انہیں ٹائر پر پٹرا رکھ کر پار کیا جاتا تھا، جب کبھی ندی میں آبی سطح میں اضافہ ہو جاتا تھا تو اسکول نہیں جا پاتی تھیں۔