گاندھی مارچ کا باقاعدہ آغاز آج بروز ہفتہ کے روز گیا کے گاندھی میدان سے ہوا، جو جہان آباد ہوتے ہوئے 9 فروری اتوار کے روز پٹنہ کے گاندھی میدان پہنچے گی۔
گاندھی مارچ کو آج گیا کے مقامی گاندھی میدان سے ناگرک سنگھرش مورچہ کی جانب سے نکالا گیا۔ گاندھی مارچ شہر کے مختلف روڈ سے ہوتے ہوئے جہان آباد کی طرف روانہ ہوئی۔ مارچ کل پٹنہ کے گاندھی میدان پہنچے گی جہاں متنازع سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ایک جلسہ عام کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔
گاندھی مارچ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں بھی شامل ہیں۔ اس میں بڑی تعداد میں نوجوان شریک ہیں۔ گاندھی مارچ میں شامل ہونے افراد نے ہاتھوں میں قومی پرچم اور سر پر گاندھی ٹوپی لگائے ہوئے دارالحکومت پٹنہ کی جانب نکل پڑے ہیں'۔
مارچ کے آغاز سے قبل گاندھی کے مجسمہ پر گلپوشی کی گئی اس کے بعد قومی ترانہ کے ساتھ اسکا آغاز ہوا۔ مارچ میں ناخوشگوار واقعات پیش نہیں آئیں اسکے پیش نظر بڑی تعداد میں پولیس جوانوں کو تعیناتی کیا گیا۔ خود سیٹی ایس پی راکیش کمار، سیٹی ڈی ایس پی راج کمار شاہ اور صدر ایس ڈی او ستیندر کمار مارچ کی نگرانی کررہے ہیں۔ پولیس کی جانب سے بتایاگیا ہے کہ مارچ کو ضلع کی سرحد تک پہنچایا جائیگا اور اسکے بعد دوسرے ضلع کی پولیس مارچ کی نگرانی کری گی'۔
مارچ میں سابق اسمبلی اسپیکر ادئے نارائن چودھری، کانگریس کے ایم ایل اے اودھیش سنگھ، ہندوستانی عوام مورچہ کے ڈاکٹر صبغت اللہ خان، اسدپرویز، توصیف الرحمان خان گاندھی مارچ یاترا میں شامل ہیں۔
سابق اسپیکر ادئے نارائن چودھری نے کہا کہ' آج ملک کے ماحول میں ہنگامی صورتحال ہے۔ آج کشمیر بند ہے، بولنے پر پابندی ہے گویا کہ ایسا لگتا ہے کہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے'۔ انہوں نے کہا کہ' سی اے اے کا نفاذ آئین کی روح کے خلاف ہے۔ وہ گاندھی اور باباصاحب کے خیالات کے مخالف ہیں۔ ہم اس کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ ہم ایسے لوگ ہیں جو ترنگا اور گاندھی کی پیروی کرتے ہیں۔ لہذا وہ پر امن طریقے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گاندھی مارچ یاترا نکالی گئی ہے۔'
مارچ میں شامل کانگریسی لیڈر پروفیسر وجے کمار میٹھو کا کہنا تھا کہ' سی اے اے کو زبردستی نافذ کیا گیا ہے۔ اس متنازع قانون کی آخری وقت تک مخالفت کی جائے گی۔ آج صرف گیا میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں اس کی مخالفت کی جارہی ہے۔'