نشست میں حالات حاضرہ پر بھی ادبا و شعراء نے تبادلہ خیال کیا، نشست کئی معنوں میں اہم تھی اولا تو یہ کہ شہر گیا میں اکثر ادبی نشستیں ہوتی ہیں۔ تاہم اس میں سبھی مشہور محقق، فکشن نگار، ادبا وشعرا کی شرکت خاص تھی، اس دوران عشرت گیاوی کی حیات وشاعری پرمبنی کتاب کارسم اجرا ہوا۔
اس دوران ادیبوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مصنف کو مبارک باد پیش کی اور ان کے اس قدم کی ستائش کی حالانکہ کچھ پہلوؤں پر مصنف کو نیک مشوروں سے بھی نوازا گیا اور کہا گیا کہ کچھ پہلو ایسے ہیں جسے مزید بہتر کیا جا سکتا ہے جس پر مصنف ڈاکٹر سید شاہد اقبال اور معصوم عزیز کاظمی نے یقین دلاتے ہوئے کہا کہ اس کومزید بہتر کرنے کی کوشش جاری ہے۔
نشست میں موجود شرکا نے 'عشرت گیاوی کی خدمات وشاعری' کے مصنف ڈاکٹرسید شاہد اقبال احمد اور معصوم عزیز کاظمی کی محنت اور ان کے اس پہل کی ستائش کرتے ہوئے اسے خوش آئند بتایا، مشہور فکشن نگار سابق پروفیسر حسین الحق نے کتاب پرتبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ عشرت گیاوی کی خدمات وشاعری کے مصنف ڈاکٹر سیدشاہداقبال نے اپنا سفر صفر سے شروع کیا اور آج اس مقام پر ہیں جو سب کے لئے سبق آموز ہے، وقت نکال کر ادبی خدمات کرنا بڑی بات ہے۔
انہوں نے کہاکہ جو حقیقت میں مصنف ہے وہ مصنف تعریف کے لائق ہے پروفیسر عین تابش نے بھی اپنے خیالات کااظہار کیااور ڈاکٹرسیدشاہد اقبال اور معصوم عزیز کاظمی کومبارک باد پیش کی پروفیسر محفوظ الحسن، پروفیسر عبد القادر، خضر امام، پروفیسر صغیراحمد صغیر، مرغوب اثرفاطمی، شمشیر خان، مرزاغالب کالج کے سکریٹری سید عارفین شبیع شمسی وغیرہ نے بھی کتاب پرتبصرہ کیا۔
ادبی نشس کے دوران 'عشرت گیاوی کی حیات وشاعری ' پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ بتایا گیا کہ وہ غالب کے سلسلے کے شاعر تھے، اس کتاب میں مشہور ناقد معصوم عزیز کاظمی کا نوے صفحات پرمشتمل مقدمہ ہے جس میں گیا کی ادبی تاریخ کاجائزہ لیاگیاہے۔
'عشرت گیاوی کی حیات وشاعری' کتاب پر تبادلہ خیال کے بعد حالات حاضرہ بالخصوص شہریت ترمیمی قانون واین آر سی اور این پی آر پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
حالانکہ پروفیسرعین تابش نے کہا کہ مذکورہ موضوع پر تفصیلی گفتگو اور لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے ایک الگ سے نشست کمنعقد ہو جس میں دانشوروں کو طلب کیا جائے اور ایک خاکہ تیار کرکے مخالفت درج کرائی جائے جس پر سبھی شرکا نے کہاکہ جلد ہی اس پر تاریخ اور جگہ کاانتخاب کرکے سبھی کو مطلع کیا جائے گا۔
اس موقع پر معصوم عزیز کاظمی نے کہا کہ موجودہ موضوع نے سوئی ہوئی قوم کو ضرور بیدار کردیا ہے اور سب سے اہم یہ ہے کہ سبھی فرقے کے لوگوں کی جانب سے 'سی اے اے'، 'این آرسی' کی مخالفت کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ یہ اتحاد ٹوٹے نہیں،کیونکہ فاسسٹ طاقتیں اس کوشش میں ہیں کہ اس معاملے کو ایک خاص فرقے کے لیے مخصوص کرکے دوسرے فرقے کو اس سے الگ کردیا جائے۔
پروفیسر حسین نے کہاکہ کوشش یہ بھی ہونی چاہیے کہ اس مخالفت کو صرف مسلمان مخالفت سے جوڑ کر نہیں دیکھنے دیا جائے، بلکہ اس میں اکثریتی آبادی کو بھی جوڑیں، جو ابھی 'سی اے اے' و 'این آرسی' اور 'این پی آر' کی مخالفت پراتفاق نہیں رکھتے ہیں انہیں اس کی باریکیوں کو سمجھایاجائے