عمر گوتم نے جب اسلام قبول کیا تب ان کی عمر محض 21 برس تھی تب سے وہ تبلیغ کا کام سر انجام دے رہے ہیں اپنے 30 سالہ طویل عرصے کے دوران ان کے خلاف ایک بھی ایسی شکایت سامنے نہیں آئی جس میں ان کے خلاف یہ الزام لگا ہو کہ انہوں نے کسی کو جبراً یا لالچ دے کر اسلام قبول کروایا ہو.
مولانا محب اللہ ندوی نے کہا کہ اسلام زور زبردستی، لالچ، ڈرانے دھمکانے کی قطعی اجازت نہیں دیتا ہے، اور نہ ایسا ہو سکتا ہے. اگر کوئی شخص ڈر کے یا زور زبردستی یا پھر لالچ میں آکر اسلام مذہب اختیار کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں کہلائے گا بلکہ اگر کوئی شخص لالچ میں آکر شادی کرتا ہے تو وہ شادی بھی قابل قبول نہیں ہوگی.
انہوں نے مزید کہا کہ عمر گوتم کا پورا خاندان آج بھی اپنے مذہب پر قائم ہے اور ان کا تعلق سب سے ابھی بھی برقرار ہے ایسے میں زبردستی کرنا کیسے ممکن ہے۔ یہ تو دل کے سکون کا معاملہ ہے مجھے امید ہے کہ جلد ہی تمام الزامات غلط ثابت ہوں گے اور بہت جلد عمر گوتم ہمارے ساتھ ہوں گے.
یہ بھی پڑھیں:'جامعہ ہمدرد کو تعلیم و تحقیق میں سرخیل بنانا پہلی ترجیح'
واضح رہے کہ دارالحکومت دہلی کے جامعہ نگر علاقے سے یو پی اے ٹی ایس کے ذریعے دو مبلغ اسلام کو مبینہ مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جن کی شناخت عمر گوتم اور مفتی جہانگیر عالم قاسمی کے طور پر کی گئی تھی.
اتر پردیش پولیس نے ان کے خلاف پہلے تو دفعہ 420/120 بی/ 153 اے/153 بی/ 295 اے، 511 اور تبدیلیِ مذہب قانون 2020 کے تحت کارروائی کی تھی جس کے بعد انہیں جوڈیشیل کسٹڈی میں بھیج دیا گیا تھا تاہم بعد میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ ہوگی آدتیہ ناتھ کے حکم پر این ایس اے اور گینگسٹر ایکٹ کی دفعات بھی شامل کردی گئی ہیں.