مزاج سے ضدی اور اپنے خوابوں کو کامیابی میں بدلنے کا حوصلہ رکھنے والی نسرین نے اڑان تب بھری جب انہیں پہلی دفعہ نیشنل کے لیے کھو کھو کھیلنے کا موقع ملا۔
نسرین کی محنت اور لگن دیکھنے کے بعد انہیں بھارتی ٹیم کی کپتانی سونپی گئی جس کے بعد نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی نسرین، اپنے ہنر کا جلوہ بکھیرتی چلی گئیں۔
نسرین پر جب کوئی طعنہ زنی کرتا تو وہ اکثر چپ رہتیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اس کا سب سے خوبصورت جواب ان کی کامیابی ہے۔
نسرین کو ملال اس بات کا ہے کہ اب تک انہیں حکومت سے کوئی ملازمت نہیں مل سکی، ان کی خواہش ہے کہ جس گھر میں وہ رہتی ہیں، وہ گھر اپنی کمائی سے بطور تحفہ والدین کو دیں۔
نسرین کی والدہ بتاتی ہیں جب بھی بیٹی کسی ٹورنامنٹ کے لیے جاتی تو انہیں آس پڑوس سے ادھار مانگ کر ان کی ضروریات مکمل کرنی پڑتی۔
نسرین کے والد کے کندھوں پر 13 افراد کے اخراجات کی ذمہ داری ہے جسے وہ بازاروں میں برتن فروخت کر معاش کا انتظام کرتے ہیں۔